سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(292) سیونگ سرٹیفکیٹ

  • 11513
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1534

سوال

(292) سیونگ سرٹیفکیٹ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

لاہور سے مرزا عبد  المجید  لکھتے  ہیں کہ  ایک متو فی  کے ترکہ  میں دیگر  جا ئیداد  کے  علا وہ  لا کھو ں  کے سیو نگ  سر ٹیفکیٹس بھی  شا مل ہیں  اور اس نے ان کی رقم  وصل  کر نے  کے لیے اپنے اکلو تے  بیٹے  کو قا نو نی طو ر پر نا مز د  کیا ہے  اب اس  بیٹے کا دعویٰ  یہ ہے  کہ ان سر ٹیفکیٹس  کا صرف  کا وہی  ما لک ہے دیگر  ورثا ء  یعنی  بہنو ں  وغیرہ  کا ان  میں  کو ئی حصہ نہیں ہے  اندر یں  حا لا ت  واضح  کر یں  کہ شر عی  طو ر  پر ان کی رقم  صرف  بیٹے  کو ملے  گی  یا جملہ  ورثا ء  میں تقسیم  ہو گی  ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

واضح  رہے  کہ اس قسم  کے سیو نگ  سر ٹیفکیٹ  حکو مت  کے ایک  ادارہ  نیشنل سیو نگ  سینٹر  کی طرف  سے جا ری  کیے  جا تے ہیں  جسے  عر ف  میں مرکز  قو می  بچت کہا جا تا ہے یہ ادارہ  عوام النا س  کے سا منے  حا لا ت  کے مطا بق  بچت  کی محتلف  سکیمیں  پیش  کرتا ہے  اور ان  کے متعلق  اپنے  قواعد  و ضبو اط  جا ری  کرتا ہے  جن میں ایک نا مزد  گی کا ضا بطہ بھی ہے  جو ہمارے  معا شرہ  میں با ہمی  منا فرت  کا با عث ہے صورت  مسئلہ  میں بھی  اسی  الجھن  کو پیش   کیا گیا  ہے  اس ضا بطہ  نا مزد  گی کی  مختصر  وضا حت  کچھ  یوں  ہے کہ :

1۔مر کز  قو می  بچت  کی کسی  بھی  بچت  سکیم  میں  شمو لیت کرنے والے کے لیے ضروری ہے  ہو تا ہے کہ وہ  کسی وارث  یا غیر  وارث کو نا مز د  کر ے جو حا د ثا نی یا طبعی  مو ت کی صورت میں اس کی  نمائند گی  کر ے ۔

(2)نا مزد کنندہ  کسی نا با لغ کو بھی نا مزد  کر سکتا ہے لیکن اس نابالغ  نمائند ہ کو اپنے  حقوق  نما ئندگی استعمال  کر نے  کے لیے  با لغ ہو نے کا انتظا ر  کر نا ہو گا ۔

(3) ایک سے زیا دہ نمائندہ گا ن کو بھی نا مزد  کیا جا سکتا ہے  پھر ان کے حصص بھی متعین کیے جا سکتے ہیں  مثلاً: با پ  تیس  فیصد  اور  بیٹا  پچا س  فیصد  وغیرہ ۔

(4)مالیا تی  ادارہ  اپنے  قواعد وضو ابط کے مطا بق  اس با ت کا پا بند  ہو تا  ہےکہ مر نے والے کے جملہ مالی حقوق صرف  نامزد  کر دہ  نما ئند ہ  کے حوالے کر ے  ان قواعد  میں یہ وضا حت نہیں ہو تی  ہے کہ وصول  کر نے  والا نما ئندہ  ان  میں  ما لکا نہ  تصرف  کا حق رکھتا ہے یا اسے  صرف  وصول  کر نے کا اختیا ر  دیا گیا  ہے ۔میت  کے شر عی  ورثا ء  کے لیے  یہ ضا بطہ نا مزدگی  بہت  الجھاؤ اور پیچید گی کا با عث  تھا  اس لیے  دیگر  ما لیا تی  اداروں  (بینکو ں )نے اس میں یہ تر میم  کی ہے کہ یہ نا مزدگی  صرف اس لیے  ہے کہ  اصل شخص  کی بیما ری یا عدم  مو جو د گی  کی صورت میں نا مز د  کر دہ سے رابطہ  کیا جا سکے نیز  وفا ت کی صورت  میں یہ نا مزدگی  خو د بخود  ختم ہو جا تی ہے  البتہ  مر کز قو می بچت  ابھی تک  اپنے پہلے ضا بطے  پر قا ئم  ہے کہ  وفات  کی صورت میں وہ جملہ  مالی  حقو ق  صرف اس کے نا مز د  کر دہ  کے حو الے  کر ےگا ۔بشرطیکہ وہ اصل شخص  کی وفا ت کا مصدقہ  سر ٹیفکیٹ پیش  کر ے  پھر  وہ ان  حقو ق  کے وصو ل  کر نے کا اہل  بھی ہو لیکن  حالات  کی سنگینی  کا احسا س  کر تے  ہو ئے اس میں یہ سہو لت  پیدا کر دی گئی  ہے کہ اگر  مر نے  والے کے  ما لیا تی  اثا ثو ں  سے متعلق  نا مز د  کر دہ اور دیگر شرعی  ور ثا ء  کے درمیا ن  کو ئی الجھا ؤ پیدا  ہو جا ئے  تو شر عی  ورثا ء عدالت  رجو ع کر یں پھر اگر وہ عدا لت مجا ز  سے نا مز د  کر دہ کے خلا ف  حکم امتناعی حا صل  کر نے میں کا میا ب  ہو جا ئیں تو مر کز قو می بچت  عدالت کی طرف سے حتمی  فیصلہ  آنے تک اس حکم امتنا عی  پر عمل  کر نے  کا پا بند  ہے بصورت  دیگر  وہ اپنے  ضا بطہ  کے مطا بق  متو فی  کے جملہ  ما لی حقوق نا مز د  کر دہ  کے حو الے کر نے  کا مجا ز ہے  صورت  مسئو لہ  کی قا نو نی  وضاحت  کے بعد  اب اس کی شر عی  وضا حت  پیش  خد مت ہے : نا مز دگی  کی دو صورتیں  ممکن  ہیں : (1)قانو نی ضرورت  (2)مالکانہ حقوق۔

(1)قانو نی ضرورت کا مطلب یہ ہے کہ نما ئند ہ کو صرف  رقم وصول کر نے کے لیے  نامز د  کیا گیا ہے  اس سے زیا دہ  اسے کو ئی  اختیا ر  نہیں  ہے اگر  نا مز د  کر دہ  اس قا نو نی  ضرورت  سے نا جا ئز  فائدہ  اٹھا نا  چا ہتا  ہے  تو عدا لتی  چا ر ہ  جو ئی  سے اس کا سد باب  ممکن  ہے جس  کی تفصیل  پہلے  گزر چکی  ہے ۔

(2)مالکا نہ تصرف کا مطلب یہ ہے کہ نما ئندہ کو صرف رقم  وصول  کر نے لیے  ہی نہیں  بلکہ  اسے بحیثیت  مالک   کے نا مز د  کیا گیا  ہے ۔وہ وصو ل  کر دہ  رقم  میں اپنی  مر ضی  کے  مطا بق  تصر ف  کر ے  یہ ما  لکا نہ  تصرف  تین  طرح  سے ممکن  ہے ۔

(3)وراثت :یہ ایک غیر  اختیا ری   انتقال  ملکیت  کا نا م  ہے  جس کے ذریعے ایک  متو فی  کا تر کہ  اس کے ورثا ء  کے حق  میں بطریق  جا نشینی  منتقل  ہو جا تا  ہے اس میں متو فی  کے اراہ  اور  اختیا ر  کو کو ئی  دخل  نہیں ہوتا  لیکن  نا مز دگی  کی صورت  میں ایک شخص  اپنے  دیگر  حقیقی  ورثا ء کو نظر  انداز  کر کے  صرف ایک وارث یا غیر وارث  کو نا مز د  کر دیا  جا تا ہے  حالا نکہ میرا ث  کی اصطلا ح  میں چند  ورثا ء  ایسے  ہیں جنہیں  کسی صورت میں بھی محرو م نہیں کیا جا  سکتا  مثلاً: ابوین(ما ں با پ) ولدین(بیٹابیٹی) زو جین (خا و ند بیو ی)لیکن مر نے اولے نے  اپنے  تصرفات کو نا جا ئز  استعمال  کر تے ہو ئےدیگر  ورثا ء  کو محروم  کر کے  صرف  ایک  کو وارث  و ما لک  بنا کر  نا مز د کیا ہے جو شر عاًنا جا ئز ہے حدیث میں ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فر ما یا :"کہ جو شخص کسی وارث  کے مقرر ہ حصہ کو ختم  کر تا ہے اللہ  اور اس کے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے مقرر کیا ہے ۔اللہ تعالیٰ قیا مت کے دن اسے جنت میں ملنے  والے حصے  سے محروم کر دیں گے۔(شعب الایما ن بیہقی:14/115)

اسطرح کی ایک روایت ابن ما جہ (حدیث نمبر 2703) میں بھی ہے اس کے علا وہ یہ ناجائز  نا مز د گی قطع  رحمی بھی ہے  جس کی شریعت میں اجا زت نہیں  اللہ تعا لیٰ نے ورثا ء کے حصص کو خو د مقرر  فر ما یا ہے کسی دوسرے کو ان میں تر میم واضا فہ کی قطعاً اجازت  نہیں ہے اگر کو ئی اللہ کی حدود سے تجا وز کر تے ہو ئے ایسا کر تا ہے تو شر عی  طو ر  پر وہ کا لعد م ہےجس کا کو ئی اعتبا ر نہیں ۔

(4)وصیت: زند گی  میں وصیت کے ذریعے  بھی کسی کو اپنی جا ئیداد  کا وارث بنا یا جا سکتا ہے  لیکن شریعت نے اس کا ایک ضا بطہ  مقرر کیا ہے جس تفصیل  حسب  ذیل  ہے : (5)وصیت کسی وارث کے لیے نہ ہو یعنی اگر شریعت کی رو اسے  اسے جا ئیداد سے حصہ  ملتا ہے تو اس کے حق میں وصیت جا ئز نہیں ۔حدیث میں ہے  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فتح مکہ کے وقت فر مایا کہ :" اللہ تعا لیٰ  نے ہر حقدار کو اس کا حق دے دیا ہے لہذا کسی وارث کے لیے  وصیت جا ئز نہیں ۔(سنن ابی داؤد:کتا ب الو صیۃ)

(6)وصیت کل جا ئیداد کے 3/1سے زائد نہ ہو جیسا کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد  بن ابن وقاص  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے فر ما یا تھا :"کہ تم اپنے ما ل سے زیا دہ سے زیادہ 3/1کی وصیت کر سکتے ہو اور یہ بھی  بہت زیا ہ ہے۔ (صحیح بخا ری )

اس حدیث  کے مطا بق اگر 3/1 سے زیا دہ کی وصیت کر تا ہے تو وہ یہ بھی کا لعد م ہے ۔

(7)وصیت کسی نا جا ئز  کا م کے لیے  نہ ہو اگر کو ئی شخص غیر شرعی کا م کی وصیت کر تا ہے یا اپنا ما ل  کسی غیر شر عی کا م میں لگا نے کی وصیت  کر تا  ہے تو ایسی وصیت کا کو ئی  اعتبا ر نہ ہو گا  اس ضا بطہ  وصیت  کی خلا ف ورزی  کر تے ہو ئے اگر کسی وارث کے حق میں  وصیت کی ہے یا غیر وارث  کے لیے 3/1 سے زیا دہ کی وصیت ہے  یا کسی  نا جا ئز  کا م  میں ما ل خر چ کر نے کی وصیت  کی ہے  تو اس کی اصلا ح ضروری ہے ارشا د  با ر ی  تعا لیٰ ہے :"ہا ں جو شخص  وصیت  کر نے  والے کی طر ف  سے  جا نب  داری  یا حق تلفی کی وصیت  کر دینے  سے  ڈر ے  تو  تو  آپس  میں اصلا ح  کر اد ے  ایسی  صورت  میں  اس پر کو ئی گنا ہ  نہیں ۔:(2/البقرۃ: 182)

(8)عطیہ :عطیہ کے ذر یعے  بھی کسی  دوسرے  کو جا ئیداد  دی  جا سکتی ہے  لیکن  اس کا  بھی  قا عدہ ہے کہ اگر اولا د  میں سے کسی  کو عطیہ  دینا  ہو تو با قی  اولا د  کو بھی  اتنا  ہی  دینا  ہو گا  اس  میں نرو  ما دہ  کی تفریق  بھی نا جا ئز  نہیں ہے  تمام  بیٹوں اور بیٹیو ں  کو برا بر برا بر  عطیہ  دینا  ہو گا  حدیث  میں ہے کہ حضرت نعما ن بشیر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے لیے  اس کے با پ  نے کچھ  عطیہ دیا  اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   کو اس پر گو اہ بنا نا چا ہا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے پو چھا :" کہ باقی  اولا د کو بھی  اتنا   دیا ہے عرض کیا نہیں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فر ما یا :" میں ایسے  ظلم  پر گو اہی  نہیں دیتا  اپنی  اولا د کے درمیا ن  عدل  کیا کرو ۔(صحیح بخا ری )

اس حدیث  کی روسے  اپنی اولا د  میں سے  کسی ایک  کو عطیہ  دینا ناجا ئز ہے تفصیل با لا  سے معلو م ہو ا  کہ صورت مسئو لہ  میں اکلوتے بیٹے  کے لیے والد  کے مترو کہ سیو نگ  سر ٹیفکیٹس پر  ما لکا نہ   تصرف  نا جا ئز  اور غیر  شرعی  ہے کیو نکہ وراثت  وصیت  اور عطیہ ہر سہ  صورتیں  اس کے لیے  درست نہیں  ہیں لہذا  اسے چا ہیے  کہ وہ ان کی  رقم  میں دوسرے شرعی ورثا ء  کو بھی  شا مل  کر ے  ان پر اس اکیلے  کا حق  قا نو نی  اور شر عی   طو ر پر تسلیم  نہیں کیا جا سکتا ۔ضرورت تنبیہ۔مسئلہ  کی وضا حت  کے بعد ہم ضروری خیا ل  کر تے  ہیں کہ سیو نگ  سر ٹیفکیٹس  کی شر عی  حیثیت  بھی بیا ن  کر دی جا ئے  کیو نکہ  ما ل  کی محبت  انسا ن  کا  اکل  حرا م  پر مضبو ر کر دیتی  ہے جو  اس کی  اخروی  بر با دی  کا با عث  ہے واضح  رہے  کہ مر کز  قو می  بچت  دو  قسم  کے سیو نگ  سر ٹیفکیٹس  جا ر ی  کر نے  کا مجا ز ہے اور  دونو ں  پر سر  د دیتا ہے ۔۔

(1)سپیشل سیونگ  سر ٹیفکٹ  :اس کے سا تھ  چھ  عدد  کو پن  پر ایک  متعین  شر ح  کے  مطابق سودی رقم  کا اند را ج ہو تا ہے  جو اصل رقم سے زا ئد ہو تی ہے  صا ر ف ہر ششماہی  کے بعد  وہ رقم وصو ل کر تا ہے  پہلے  چا ر  کو پن  برا بر رقم کے حا مل  ہو تے ہیں  اور آخری  دو کو پن  پر زیا د ہ  رقم لکھی  ہو تی ہے  تا کہ صا رف  کے لیے  کشش با قی  رہے ۔

(2) ڈیفنس سیو نگ  سر یٹفکیٹ  اس کے ساتھ   کو پن  نہیں ہو تے  بلکہ دس  سا لہ  سکیم  کے تحت  اس کے ریٹ  مقرر ہو تے ہیں  آج کل  ریٹ درج ذیل  ہیں :  ایک لا کھ  روپے  ما لیت  کے سر ٹیفکیٹ  لینے  پر :

(1)ماہا نہ سود -------۔/792روپے۔

(2)ششماہی سود -------۔/5150روپے ۔

(3)پا نچ  سا لہ سو د -------/149000روپے ۔

(4)دس سالہ سود--------۔/369000روپے  ۔

یہ سود اصل  رقم کے علا وہ  ہے  دیکھا آپ نے کس  قدر  پر کشش پیش کش  ہے  کہ دس  سا ل بعد  1لا کھ  رو پے  بھی محفو ظ  ہیں اور ان پر ٪369سود بھی دیا جا رہا ہے  جب کہ  اس کے متعلق  ارشاد با ری تعا لیٰ ہے :  اے ایما ن  وا لو ! اللہ سے ڈرو  اور  جو سود  با قی  رہ گیا ہے وہ  چھو ڑ  دو ا گر  تم اہل ایما ن  ہو اور اگر ایسا نہیں  کر تے  تو اللہ  اور اس  کے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   کے سا تھ جنگ  لڑنے  کے لیے  تیا ر ہو جا ؤ  اور اگر  تم  تو بہ  کر لو  تو تم  صرف  اصل  ما ل کے ما لک  ہو :  (2/البقرۃ :279)

نیز فر ما یا :" کہ  جو شخص  اپنے  پا سآئی  ہو ئی اللہ  کی نصیحت  سن کر با ز آگیا  اس کے لیے  جو گز ر  چکا  سو گز ر  چکا  اور جو پھر  دو با رہ اس  حرا م فر ف لوٹا  وہ جہنمی ہے ایسے  لو گ  اس میں  ہمیشہ  رہیں گے  ۔(2/البقرۃ 175)

 اس لیے  متو فی  کے ورثا ء  کو ہم نصیحت  کر تے ہیں  کہ وہ  ان سر  ٹیفکیٹس  سے حا صل  ہو نے والی  اصل  رقم  ہی وصو ل  کر یں  اس پر ملنے  والا سود آپ کا نہیں ہے اسے ہرگز وصو ل  نہ کر یں  یہ سو د  آپ  کے دوسرے  مال  کو بھی خرا ب  کر دے  گا اگر چہ  لو گ  اسے "منا فع" کا خو بصو رت  نام  دیتے  ہیں لیکن  یہ  سود  ہے جس  کی شر عاً اجازت نہیں  ۔(واللہ اعلم )

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:315

تبصرے