السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بدو ملہی سے چو ہدری بشیر احمد ملہی لکھتے ہیں کہ ایک آدمی صا حب جا ئیداد ہے اس کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے خو د میا ں بیو ی بھی مو جود ہیں وہ اپنی غیر منقولہ (زرعی رقبہ ) جا ئیداد زند گی میں تقسیم کر نا چا ہتا ہے اس کی وضا حت کر یں کہ کتنا حصہ کس کو ملے گا نیز ایک با پ اپنی اولا د کی لا پرو ائی اور آوار گی سے تنگ آکر روپو ش ہو جا ئے تو کیا وہ عند اللہ مجرم ہو گا جبکہ اپنے بچو ں اور بیوی کو با ر با ر وار ننگ دے چکا ہو ۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
زند گی میں کسی کو اجا زت نہیں کہ وہ ضا بطہ میرا ث کے مطا بق اپنی جا ئیداد تقسیم کر ے کیو نکہ وراثت اس حق کو کہا جا تا ہے جو غیر اختیا ری طو ر پر بلا عوض دوسروں کو منتقل ہو جا ئے جب کہ زند گی میں تقسیم کر نے والا اپنے اختیا ر سے تقسیم کر تا ہے نیز وراثت کے حقدار ہوتے ہیں جو مو رث کی وفا ت کے وقت زندہ مو جو د ہو ں زندگی میں تقسیم کر نے کی صورت میں یہ اند یشہ بد ستو ر قا ئم رہتا ہے کہ وراثت کا حق کسی ایسے شخص کو بھی مل جا ئے جو اس کی زند گی میں فو ت ہو گیا ہو لہذا ضا بطہ میرا ث کے مطا بق اپنی جا ئیداد تقسیم کر نا شرعاً درست نہیں ہے ہا ں وصیت کی جا سکتی ہے جو تیسر ے حصی سے زائد نہ ہو اور نہ ہی ایسے رشتہ دار کے لیے ہو جس کو وراثت سے حصہ ملنا ہے اسی طرح بطور عطیہ بھی اپنی جا ئیداد اولا د کو دی جا سکتی ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ نر ینہ ما دینہ اولاد کا لحا ظ کیے بغیر برابر برابر عطیہ دیا جائے یعنی لڑکو ں اور لڑکیو ں میں مسا وا ت کی جا ئے اس عطیہ کے پس منظر میں کسی کو جا ئیداد سے محروم کر نے کے جذبا ت بھی نہ ہو ں کسی حیلے بہا نے سے اپنی جا ئیداد سے محروم کر نا شر عاً جا ئز نہیں ہے ۔سوال کے دوسرے حصہ کا جوا ب یہ ہے کہ اپنے اہل خا نہ کی لا پرو ائی سے تنگ آکر روپو ش ہو جا نا بھی جا ئز نہیں کیو نکہ حدیث میں ہے کہ وہ مؤمن جو لو گو ں سے میل ملا پ رکھتا ہے اور ان کی تکلیفوں پر صبر کرتا ہے اس مؤمن سے کہیں بہتر ہے جو لو گو ں سے میل ملا پ نہیں رکھتا اور نہ ہی ان کی تکلیفوں پر صبر کر تا ہے ۔(مسند امام احمد رحمۃ اللہ علیہ :5/365)
والد کو چا ہیے کہ وہ اپنے اہل خا نہ میں رہتے ہو ئے انہیں وعظ و نصیحت کرتا رہے اور انہیں بے لگا م نہ چھو ڑ ے اس کے رو پو ش ہو جا نے سے ان کی آوارگی میں اضآ فہ ہو گا اللہ تعا لیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکمدیا ہے :" اپنے اہل خا نہ کے متعلق کہتے رہو اور اس پر ہمیشگی کرو ۔(20/طہ:132)
اگر گھر میں رہتے ہو ئے خو د اپنے ایما ن کو خطرہ ہے یا اس کے بگڑنے کا اند یشہ ہے تو علیحدگی اختیا ر کی جا سکتی ہے جیسا کہ حدیث میں ہے :"ایک وقت ایسا آئے گا کہ مسلما ن کا بہترین مال اس کی بکریا ں ہو ں گی جن کو لے کر وہ پہاڑوں کی چو ٹیو ں اور با رش کے مقا ما ت کی طرف نکل جا ئے گا اور فتنو ں سے راہ فر اراختیا ر کر کے اپنے دین کو بچا لے گا ۔(صحیح بخاری :کتا ب الایما ن 19)
امام بخا ری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر ایک عنوا ن با یں الفا ظ قا ئم کیا ہے :" گوشہ نشینی اختیا ر کر نے میں بر ی سو سا ئٹی سے آرا م مل جا تا ہے ۔(صحیح بخا ری :کتا ب الر قا ق )
امام بخا ری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث سے یہ ثا بت کر نا چا ہتے ہیں کہ اپنے دین کو بچا نے کے لیے علیحدگی اختیا ر کر نا اچھا عمل ہے اس کے با و جو د اگر انسا ن میں فتنوں کا مقا بلہ کر نے کی علمی عملی اور اخلا قی ہمت ہے تو معا شر ہ میں رہتے ہو ئے ان کی رو ک تھا م میں کو شا ں رہنا افضل ہے کیو نکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے فتن دور میں پہلے مکہ مکرمہ میں اس کے بعد مد ینہ منورہ میں اقا مت اختیار فر ما ئی لیکن اہل خا نہ کو چھو ڑ کر روپو ش ہو جا نا ایک ایسی پسپا ئی ہے جو ایک مرد انگی کے خلا ف اور اس کی جرات و ہمت کے منا فی اقدام ہے حضرت ابرا ہیم علیہ السلام نے اپنے والد سے تنگ آکر گھر چھو ڑ ا لیکن جب والد نے جا ن سے مار دینے کی دھمکی دی اور گھر سے نکل جا نے کو کہا تو پھر اپنے گھر کو خیر با د کہا اسی طرح حضرت نو ح علیہ السلام کی بیو ی اور بیٹا نا فر ما ن تھے جس کا قرآن کر یم میں ذکر ہے لیکن ہے لیکن حضرت نو ح علیہ السلام ان سے آکر رو پو ش نہیں ہو ئے ان حقا ئق کی رو شنی میں ہم گھر کے سر پرست سے گز ارش کر یں گے وہ ان سے تنگ آکر رو پو ش ہو نے کی بجا ئے انہیں وعظ و نصیحت کرتا رہے اور ان سے علیحدگی اختیا ر کر کے ان کی مذید آوارگی کا با عث نہ بنے (واللہ اعلم با لصواب )
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب