السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
چونیاں سے عبد الغفو ر لکھتے ہیں کہ ہم تین بھا ئیو ں کی ارا ضی تقریباً پچا س کنا ل ہے ہما را ایک بھا ئی عرصہ چھ سا ل سے مخبو ط الحو اس ہو نے کی بنا پر لا پتہ ہے اس کی نرینہ اولا د کو ئی نہیں صرف ایک لڑکی زندہ ہے لا پتہ شخص کی بیوی بھی چند ما ہ قبل انتقا ل کر گئی ہے اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ لا پتہ شخص کی زرعی اراضی کیسے تقسیم کیا جائے جب کہ اس کے فو ت ہو نے کے شواہد نہیں ہیں ایسے حا لا ت میں اس کی لڑکی پو ری جا ئیداد کی حقدار ہو گی یا صرف اپنے حصہ کی ؟ نیز اگر اسے فو ت شدہ قرار دیا جا ئے تو اس کی چند ما ہ پیشتر فو ت ہو نے والی بیو ی کو اس کی جا ئیداد سے حصہ دیا جا ئے گا ؟ اس صورت میں لڑکی کو کیا ملے گا ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بشر ط صحت سوال واضح ہو کہ فقہی اصطلاح میں لا پتہ شخص کو مفقو د الخبر کہتے ہیں یعنی ایسا گم شدہ شخص جس کی زند گی اور مو ت کا تلاش کے با و جو د کو ئی سرا غ نہ مل سکے آیا وہ زندہ مو جو د ہے یا دنیا سے چل بسا ہے ایسے شخص کی وراثت کے متعلق فقہی صورت یہ ہو تی ہے کہ وہ اپنے ما ل کے با رے میں زندہ تصور کیا جا تا ہے یعنی اس کے ما ل میں سے اس وقت تک کو ئی تصرف نہ کیا جا ئے جب تک اس کی زندگی یا مو ت کا یقینی علم نہیں ہو سکے اگر اس کی زند گی ثا بت ہو جا ئے اور وہ اندہ وا پس آجا ئے تو اپنی جا ئیدا د کا خو د ما لک ہو گا اور اگر اس کی مو ت کی تصدیق ہو جا ئے یا عدا لت اسے مردہ قرار دے دے تو لا پتہ شخص کی جا ئیداد اس کے مو جو د ہ شرعی ورثا ء میں تقسیم کر دی جائے جو فیصلہ مو ت کے وقت زندہ ہو ں اس سے پہلے جن رشتہ دا رو ں کا انتقا ل ہو چکا ہے انہیں لا پتہ شخص کی جا ئیداد سے کچھ نہیں دیا جا تا صورت مسئو لہ میں تین بھا ئیو ں کی مشترکہ جا ئیداد 50کنا ل ہے لا پتہ شخص کا تیسرا حصہ الگ کر کے اس کی لڑکی کے سپرد کر دیا جا ئے پھر اس کی مو ت کا فیصلہ کر نے کے لیے عدا لت کی طرف رجو ع کیا جا ئے یہ حکو مت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے لا پتہ شہری کا کھو ج لگا نے کے لیے پو ری سر گرمی اور ذمہ داری کے سا تھ اپنے نشرو اشا عت کے ذرائع و وسا ئل کو استعما ل کر ے پو ری تحقیق کر نے کے بعد عدا لت فیصلہ دے کہ وہ مردہ ہے یا زندہ ! اگر اس کے زندہ ہو نے کا ثبو ت مل جا ئے تو لڑکی کو دی ہو ئی پو ری جا ئیدا د اس کے حو الے کر دی جا ئے اور اگر عدا لت کی طرف سے اس کی مو ت کی تصدیق ہو جا ئے اور اس کے مر نے کا فیصلہ دے دیا جا ئے تو تا ر یخ فیصلہ کے وقت جو شرعی ورثا ء زندہ ہو ں ان میں اس کا ترکہ تقسیم کر دیا جائے اب اس کے ورثا ء میں صرف ایک لڑکی اور دو بھا ئی ہیں اگر تا ر یخ فیصلہ تک یہ زندہ ہیں لا پتہ شخص کی نصف جائیداد اس کی لڑکی کو مل جا ئے گی اور باقی دو نو ں بھا ئی ما لک ہو ں گے تا ریخ فیصلہ سے پہلے جو ورثا ء فو ت ہو چکے ہیں انہیں اس کی جا ئیداد سے کچھ نہیں ملے گا جیسا کہ صورت مسئولہ میں مفقو د کی بیو ی کے متعلق پو چھا گیا ہے مر حو مہ کو اس کے خاوند کے زندہ یا مردہ ہو نے کی دونو ں صورتو ں میں کچھ نہیں ملے گا کیونکہ میت کی جا ئیداد سے صرف زندہ ورثا ء کو حصہ دیا جاتا ہے ایک تیسری صورت کا بھی امکا ن ہے جسے مو جو د ہ حا لا ت کے کے پیش نظر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا وہ یہ کہ اگر عدا لت کے فیصلہ کے بعد جائیداد تقسیم ہو گئی پھر وہ زندہ ظا ہر ہو ا تو جتنا تر کہ ورثا ء کے پا س مو جو د ہے حا صل کر لے گا لہذا ضروری ہے کہ یہ تمام با تیں ورثا ء سے لکھو الی جائیں تا کہ بعد میں کسی قسم کے جھگڑے کی کو ئی صورت پیدا نہ ہو ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب