سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(282) پلاٹ کی صورت میں ترکہ

  • 11499
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1059

سوال

(282) پلاٹ کی صورت میں ترکہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

گو جرا نوا لہ سے عمرا ن صدیق لکھتے ہیں  کہ ہما رے والد محترم کا انتقا ل ہو گیا  پشما ند گا ن  میں سے  پا نچ  لڑکے  اور تین لڑکیا ں  اور بیوہ  مو جو د  ہے جا ئیداد  کی صورت حسب ذیل ہے : والد محترم کا تعمیر کردہ پانچ  مر لے کا مکا ن  جس کی زمین والد صا حب نے خریدی  اور تعمیر  بڑے بیٹے نے  اپنی کما ئی سے کی جب ککہ  وہ والد  محترم   کے ساتھ  ہی رہتا تھے  بعد میں وہ الگ ہو گیا   ایک ملا زم لڑکے نے کو شش کر کے  آٹھ مر لے کا ایک پلا ٹ خرید ا اس پر اٹھنے والے زیا دہ تر اخرا جا ت  اسی ملا ز م  بیٹے  نے برا دشت کیے  البتہ  دو بیٹیوں  نے بھی  ہمت کے مطا بق  اس میں  کچھ حصہ ڈا لا  چھو ٹے  بیٹے  نے اس  میں کوئی حصہ نہیں  ڈا لا  کیو نکہ  وہ ابھی  چھوٹا  تھا  پلا ٹ  کی رجسٹری  کے وقت  ملا زم  بیٹے  نے  والد  محترم  سے کہا  کہ اس  پلا ٹ  میں چاروں بھا ئیوں کو برابر برابر  شریک  نہ کر یں  بلکہ  صرف  شدہ  رقم  کے تنا سب  سے کم  و پیش  حصہ ہو نا چا ہیے  لیکن  والد  محترم  نے اس پلا ٹ کو فرو خت کر کے  اس کی   رقم  چا رو ں  بیٹو ں  میں  برابرتقسیم  کر دی  اب وضا حت  طلب  با ت یہ ہے  کہ مذکو رہ 5 مر لے  پر بنا  ہو ا مکا ن  جس کی تعمیر  پر  صرف  بڑے  بیٹے کی رقم خرچ ہو ئی ہے وہ تمام ورثا ء  میں شرعی  حصو ں  کے مطا بق  تقسیم ہو گا  یا بڑے  بیٹے کو کچھ زیادہ   حصہ  ملے گا ؟ نیز پلا ٹ  والد  محترم  نے اپنی زند گی  میں چا رو ں  بیٹوں   برابربرا بر   دے  دیا تھا  ان کا یہ طرز  عمل  صحیح  تھا  یا نہیں ؟  اگر صحیح نہیں تو اب  اس کی تلا فی  کیسے  ہو سکتی  ہے  نیز  کیا پا نچو ں  بیٹے  اور تین  بیٹیاں  والد   محترم   کی زند گی  میں کیے  گئے  اس تصرف پر شر عاً  اعترا ض   کر نے  کا حق  رکھتے  ہیں ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرط  صحت سوال صورت  مسئولہ  میں بیا ن کر دہ  دو چیز یں  فیصلہ  طلب  ہیں  (1)  والد محترم کے خرید  کر دہ پا نچ  مر لہ پلاٹ  پر  بڑے  بیٹے  کی کما ئی  سے تعمیر  کر دہ  مکا ن ۔

(2) ملا زم بیٹے کی کو شش سے خریداہوا  آٹھ مر لے  کا پلا ٹ  جسے  والد محترم  نے اپنی زند گی  میں فرو خت  کر کے  اس کی رقم  چا رو ں  بیٹو ں  میں مسا و یا نا تقسیم  کر دی  جہا ں  تک  پا نچ  مر لے  پلا ٹ  پر تعمیر  کر دہ  مکا ن  کا تعلق  ہے وہ سب والد کی ملکیت تصور ہو گا  اگر چہ اس کی تعمیر پر بڑے بیٹے  نے رقم  خرچ  کی ہے  چو نکہ  وہ اپنے  والد  کے ساتھ  ہی رہتا تھا  اور ایسے حالات میں بڑے لڑکے  والدین  کو ہی کما ئی  دیتے ہیں  ہا ں اگر  والد  کو کوئی  چیز  دیتے  وقت وضا حت  کر دی جا ئے  کہ میں  بطو ر  امانت  آپ کے سپرد  کر رہا ہو ں  اس پر ملکیت  کا حق  میرا ہی ہو گا ۔اس صورت  میں لڑکے  کا حق  ملکیت  بد ستو ر  قا ئم رہے گا جب کہ  صورت  مسئولہ  میں مکان  کے متعلق  اس قسم کی کو ئی  صرا حت  مو جو د  نہیں  ہے لہذا وہ مکا ن والد کی ملکیت ہے  جو اس کی وفا ت کے بعد  ورثا ء  میں شرعی حصو ں کے مطا بق   تقسیم ہو گا اور بڑے بیٹے  کو تعمیر  کی وجہ  سے کو ئی زیا دہ حصہ  نہیں دیا جا ئے گا ۔دوسری چیز  جو آٹھ  مرلہ  پلا ٹ  کی شکل  میں ہے  اور با پ نے اسے فرو خت  کر کے  اس کی رقم  چا رو ں  بیٹیو ں  میں برابر  تقسیم  کر دی ہے اس میں کچھ تفصیل  ہے  چو نکہ  سوال میں اس کے متعلق  وضا حت  نہیں ہے لہذا  مکا نی  حد تک  اس کی صورت  مندرجہ ذیل  ہو سکتی ہے ۔

(الف) ملا زم بیٹے نے  اپنے  لیے  ہی اپنے  نا م  وہ پلا ٹ  خرید  ااور  اس کے  دو بھا ئیو ں نے تعا ون  کے طور  پر اسے  کچھ رقم  دی ،

(ب) تینو ں بیٹیو ں  نے مشترکہ  کہ طو ر  پر وہ پلا ٹ  خریدا اور خرید تے  وقت  بطو ر  شراکت  رقم  خر چ  کی گئی  (ج) پلا ٹ والد کے نام خرید ا گیا  اور خرید  تے وقت  رقم صرف  کر نے والو ں  نے وضا حت  کر دی  تھی  کہ خرید  کر دہ  پلا ٹ  ہما ری  ملکیت  ہو گا  اور اس میں ودسرے  ورثا ء  شریک نہیں ہو ں گے  اور وضا حت  کا ان  کے پا س  کو ئی  دستا ویز ی یا  گو ا ہو ں  کی شکل میں کو ئی  ثبو ت  مو جو د ہو ۔(د)زمین والد کے نا م خریدی گئی  اور خرید تے وقت  رقم  صرف  کر نے والو ں نے وضا حت  نہیں  کی کہ پلا ٹ  ہما ری  ملکیت  ہو گا  اگر کی ہے  تو ان  کے پا س  اس کا کو ئی تحریری  یا ز با نی  ثبو ت  نہیں ہے پہلی  تین صورتو ں  میں مر حو م کو اس پلا ٹ  میں اپنی  طرف  سے تصرف  کر نے  کا کو ئی  حق  نہ تھا  کیو نکہ  وہ پلا ٹ  کا ما لک  نہ تھا  البتہ  فرق  یہ ہو گا  کہ پہلی  صورت  میں پلا ٹ  کی تما م  رقم  ملا ز م  بیٹے  کو ملے  گی  اور دوسرے  شریک  بیٹو ں  کو کچھ  نہیں ملے گا  کیو نکہ انہو ں نے بطو ر  تعاون  اس کی خرید میں حصہ  ڈا لا  تھا  البتہ  دو سری  صورت  میں فروخت  کر دہ  پلا ٹ  کی رقم  کو صرف  کردہ  رقم  کے  تنا سب  سے تینو ں  بیٹو ں  میں تقسیم  کر دیا  جا ئے ۔چو تھی صورت میں وہ پلا ٹ والد کی ملکیت تصور  ہو گا جس میں اسے  تصرف  کا حق ہے لیکن  زندگی  میں اسے  فرو خت  کر کے  اس کی رقم اولا د  میں تقسیم  کر تے   وقت  تما م لڑ کو ں اور لڑکیو ں کو  مسا ویا نہ  طو ر  پر اس میں شا مل  نہیں کیا گیا  بلکہ  بڑے  بیٹے  اور تینو ں  بیٹیوں  کو  اس سے محروم  رکھا گیا جو شر عاًدرست نہ تھا  کیو نکہ  یہ ایک عطیہ  کی شکل  ہے جس  میں  نر ینہ  اور ما د ینہ  کا فرق  کیے بغیر  تما اولا د  کو  برابرا ،برابر  حصہ دیا جا تا  ہے  لہذا  اس تقسیم کو پنچائتی  یا اپنے طور  پر درست  کیا جا سکتا ہے  وہ اس طرح  کہ اس رقم  کو لڑ کیو ں  سمیت  تمام  اولا د  میں برابر ، برابر  تقسیم کر دیا جا ئے  البتہ  اگر  والد کی تقسیم  کے وقت  کسی  وارث  نے کو ئی اعترا ض  نہیں اٹھا یا بلکہ  علم  ہو نے  کے با و جو د  والد کی تقسیم  کو برضا  ور غبت  قبو ل کر لیا  تھا  جس کا مطلب  یہ ہے  کہ انہو ں نے اپنے  حقوق  سے دستبرداری  کا اظہا ر  کر دیا ہے اس صورت  میں اب  کسی  وارث کو اعترا ض  کر نے  کا حق نہیں  ہے لیکن  سوال  میں بعض  ورثا ء کی طرف سے  والد محترم  پر اعترا ض  کی صرا حت مو جو د ہے لہذا والدکی اس  تقسیم کو  کسی صورت  میں بر قرار  نہیں رکھا جا سکتا  بلکہ  اس کی اصطلا ح  ضروری  ہے جیس اکہ غلط وصیت کے متعلق  ارشاد  با ر ی تعا لیٰ : ہاں جو شخص  وصیت  کر نے  والے  کی جا نب  سے  جا نب  داری یا حق  تلفی کا اند یشہ  محسو س کر ے  تو ان  کی آپس  میں  اصلا ح  کر دینے  میں کو ئی  گنا ہ نہیں ہے ۔(2/البقرہ:182)

اللہ تعا لیٰ مر حو م  کو معا ف  فر ما ئے  اور اس کے بیٹوں  کو غلطی کی تلافی  کر نے کی  تو فیق  دے ۔آمین۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:305

تبصرے