السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بصیر پورسے سرداراں زوجہ سلطا ن لکھتی ہیں کہ میرے ما موں جب فو ت ہو ئے تو اس کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں زندہ تھیں دو نو ں بیٹوں نے اپنی بہنو ں سے پو چھے بغیر گیر منقو لہ جا ئیداد یعنی زمین آپس میں با نٹ لی بعد میں ایک بیٹے نے اللہ سے ڈرتے ہو ئے اپنی بہنوں کو ان کا حصہ واپس کر نے کی پیش کش کر دی بہنو ں نے اسے اپنا حصہ معاف کر دیا دوسرا بیٹا جب بیما ر ہو ا تو بہنوں نے اس سے اپنے حصے کا مطا لبہ کیا اس نے حصہ دینے کا وعدہ کر لیا لیکن وہ وعدہ پو را کیے بغیر مر گیا چو نکہ با ت پہلے چلی ہو ئی تھی اس لیے بہنو ں نے اس کی اولا د سے مطالبہ کیا کہ تمہا رے با پ کے سر پر ہما رے حصے کا بو جھ ہے ادا کر یں لیکن انہو ں نے ان کا حق دینے سے انکا ر کر دیا اب کیا بہنو ں کو اپنے بھا ئی کی اولا د سے اپنے حق کا مطا لبہ کر نے کا شرعاً جوا ز ہے یا نہیں ؟ کیا اولا د بھی پا بند ہے کہ وہ اپنے با پ کا قر ض ادا کر ے اگر اولا د دینا چا ہے تو اس بھا ئی کی جا ئیداد سے اب بہنو ں کو کتنا حصہ ملنا چاہیے ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بشرط صحت سوال واضح ہو کہ صورت مسئولہ میں شرعی تقسیم اسی طرح تھی کہ کل جا ئیداد کو چھ حصو ں میں تقسیم کر لیا جا تا دو دو حصے بیٹو ں کو اور ایک ایک حصہ بیٹیوں کو دیا جا تا لیکن بیٹیوں نے اپنی بہنوں کو محروم کر کے خو د ہی غیر منقو لہ جا ئیداد پر قبضہ کر لیا اس طرح بہنو ں کو ملنے والا کل غیر منقو لہ جا ئیداد کا 3/1بھی بھا ئیوں کے پا س چلا گیا اب چو نکہ بہنیں ایک بھا ئی کے پا س والے حصے (6/1)سے دستبردار ہو گئی ہیں اور دوسرے بھا ئی سے اپنے با قی حصہ (6/1)کا مطالبہ کیا تھا اور وہ وعدہ ادائیگی کے با و جو د ادا کیے بغیر فو ت ہو گیا ہے اب بہنوں کا با قی حصہ 6/1ان کے بھا ئی کی اولا د کو منتقل ہو چکا ہے اس لیے انہیں شر عاً یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ اپنے با پ سے ملنے والے 6/1حصہ کا مرنے والے بھا ئی کی اولاد سے مطا لبہ کر یں اولا د کو بھی چا ہیے کہ وہ اپنی پھو پھیوں کو ان کا حق واپس کر کے اپنے با پ کو اس بوجھ سے سبکدو ش کر یں قرآن مجید نے جو میرا ث کا ضا بط بیا ن کیا ہے اس کے اس کے مطا بق میت کے ذمے قر ض کی ادائیگی اور اس کی جائز وصیت کے اجر اء کے بعد جو با قی بچے اس میں ورا ثا ء کے لیے وراثت جا ری ہو تی ہے اسلا م کی رو سے اولا د کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے با پ کے ذمے جو ما لی واجبا ت ہیں وہ انہیں ادا کر یں حدیث میں ہے "کہ مؤمن کی روح قرض کی وجہ سے ادائیگی تک کے لیے اللہ کے حضو ر معلق رہتی ہے یعنی اللہ کی عدا لت میں گر فتا ر رہتی ہے نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا کہ انسا ن کے ذمے ایسے حقو ق با قی رہتے ہیں واجب الادا ہو ں ۔جن کی ادا ئیگی نہ کی گئی ہو ۔(مسند امام احمد رحمۃ اللہ علیہ : 5/8)
بہنوں کو حق پہنچتا ہے کہ وہ اپنا حق لینے کے لیے اپنے بھا ئی کی اولا د سے مطا لبہ کر یں اور فر ما نبردار اولا د کو چا ہیے کہ وہ اس کی ادائیگی میں پس و پیش نہ کر یں یا درہے کہ قیا مت کے دن انسا ن کی نیکیا ں اور برائیاں زر مبا دلہ کے طور پر بھی استعما ل ہو ں گی اس لیے ما لی حقوق کی ادا ئیگی اس دنیا میں ہو جا نی چا ہیے بصورت دیگر اس دن پریشا نی کا سا منا کرنا پڑے گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ قیا مت کے دن ما لی حقو ق کے عوض اپنی نیکیوں سے ہا تھ دھو نے پڑیں اور حق داروں کی برا ئیا ں اپنے کھاتے میں ڈا ل کر جہنم کا راستہ اختیا ر کر نا پڑے یہا ں اس با ت کی وضاحت کر دینا بھی ضروری ہے کہ بہنوں کو صرف اپنے اسی حصے کے مطا لبہ کا حق ہے جو با پ کی طرف سے انہیں ملنا تھا بھا ئیوں کی دوسری جا ئیداد سے ان کی اولا د کی مو جو د گی میں یہ حق دار نہیں ہیں با پ کی غیر منقو لہ جا ئیداد سے صرف 3/1کی حقدار تھیں اس میں آدھا یعنی 6/1اپنے بھا ئی کو معا ف کر چکی ہیں اب با قی 6/1کا مطا لبہ کر سکتی ہیں جو ان کے بھا ئی نے ادا کرنا تھا لیکن ادائیگی کے بغیر وہ فو ت ہو گیا ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب