السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
فیصل آباد سے محمد سردار لکھتے ہیں کہ ایک آدمی فو ت ہو ا پسماندگان میں سے بیو ہ ایک بیٹی اور دو بھا ئی مو جو د تھے اس وقت کے مرو جہ قا نو ن کے مطا بق میت کی زمین دوسرے ورثا ء کے بجا ئے صرف اس کی بیو ہ کے نا م منتقل ہو گئی بیو ہ نے اپنے خا و ند کی اس زمین کو اپنی بیٹی کے نا م انتقال کرا دیا جب کہ بیوہ کے دو حقیقی بھتیجے بھی موجود ہیں جب بیو ہ فو ت ہو گئی تو اس کی بیٹی کے چچا زاد بھا ئیو ں نے اس کے خلا ف مو جو د ہ زمین پر دعو یٰ استقرار حق دا ئر کر دیا اب دریا فت طلب مسئلہ یہ ہے کہ مذکو رہ لڑکی کو ملنے والی زمین سے اس کے چچا زا د بھا ئیو ں کو شرعاً کچھ مل سکتا ہے یا نہیں ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بشرط صحت سوال واضح ہو کہ مذکو رہ زمین ابتدا ہی سے غلط تقسیم کی صحیح صورت یہ تھی کہ متو قی کی جا ئیداد کے آٹھ حصے کر لیے جاتے ایک حصہ بیو ہ کو چا ر حصے لڑکی کو اور با قی حصے اس کے دو نو ں بھا ئیو ں کو دے دیئے جا تے لیکن صورت مسئولہ میں تمام جا ئیداد بیٹی کے نا م منتقل کر دی گئی ہے جو شر عاً و قا نو ناً جا ئز نہیں ہے وہ صرف اپنے با پ کی نصف جا ئیداد اور ما ں کو ملنے والے حصے سے نصف کی ما لکہ ہے با قی جا ئیدا د اوپر جو اس کا نا جا ئز قبضہ ہے اسے و اگز ار کر نے کے لیے اس کے چچا زا د بھا ئی اس کے خلا ف دعو یٰ کر نے میں حق بجا نب ہیں انہیں اپنے اپنے با پ ( جو میت کے حقیقی بھا ئی تھے )کا حصہ ملنا چاہیے اور وہ بیو ہ کا 8/1اور بیٹی کا 2/1نکا ل کر با قی 8/3ہے یہا ں اس با ت کی وضا حت کر دینا بھی ضروری ہے کہ بیو ہکے فو ت ہو جا نے کے بعد اس کے حصہ اسلامی 8/1سے لڑکی کے چچا زا د بھا ئیوں کو کچھ نہیں ملے گا وہ صرف پہلی تقسیم میں 8/3کے حقدار ہیں اور اسی حصہ کو لینے کے لیے وہ عدالتی چا رہ جو ئی کر نے کے مجا ز ہیں اس سے زیا دہ کے وہ حق دار نہیں ہیں ۔(واللہ اعلم )
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب