سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(268) بہن کی جائیداد سے ساس کا حصہ

  • 11485
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 896

سوال

(268) بہن کی جائیداد سے ساس کا حصہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک سائلہ بذریعہ ای میل سوال کرتی ہے۔کہ میری بہن نے مجھے کچھ رقم دو بیٹیوں کی شادی کے لئے دی تھی۔اب وہ فوت ہوچکی ہے۔اس کی ساس کا مطالبہ ہے کہ وہ رقم  ہمارے حوالے کی جائے۔ جبکہ مرحومہ کی دونوں بیٹیاں میرے پاس ہیں۔ کیا بہن کی جائیداد سے ساس کو حصہ ملتا ہے کہ نہیں اگر نہیں تو میرے پا جو  امانت ہے۔ اسے کیا کروں وراثت کے طور پر تقسیم کردوں یا بیٹیوں کی شادی پر لگادوں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورت مسئولہ  میں دی گئی رقم کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں:

1۔وہرقم بطور وصیت ہو یعنی مرحومہ نے وصیت کے طور پر رقم اپنی بہن کو دی لیکن یہ اس لئے ناجائز ہے کہ وصیت ایسے شخص کے  لیے کی جاسکتی ہے جوشرعی طور پر جائیداد کا واث بن سکتا ہو۔بیٹیاں چونکہ اپنی والدہ کی متروکہ جائیداد سے حصہ پاتی ہیں اس لئے ان کے حق میں وصیت ناجائز ہے۔

2۔وہ رقم بطورعطیہ کے ہو یہ صورت بھی صحیح نہیں کیونکہ جس شخص کو عطیہ دیا جائے۔ اسے چاہیے کہ عطیہ دینے والے کی موت سے پہلے پہلے اس پر قبضہ کرے  مذکورہ صورت میں بیٹیوں کا ا س رقم پر قبضہ نہیں ہوا بلکہ وہ تو ان کی خالہ کے پاس ہے۔

3۔تیسری صورت یہ ہے کہ مرحومہ نے بطور امانت کچھ رقم اپنی ہمشیرہ کے پاس رکھی تاکہ وہ بیٹیوں کی شادی پر اٹھنے والے اخراجات اس رقم سے پورے کرے لیکن وہ کی شادی سے پہلے  فوت ہوچکی ہے اب یہ رقم اس کی متروکہ جائیداد شمار ہوگی اور اس میں ضابطہ میراث جاری ہوگا ہمارے نزدیک آخری صورت یہی ہے کہ اس رقم کو ورثاء میں تقسیم کردیا جائے جس کی  تفصیل درج زیل ہے۔

(الف) دو  تہائی اس کی دونوں بیٹیوں کا حق ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:'' اور اگر مرنے والے کی صرف لڑکیاں ہی ہوں اور وہ دو سے زیادہ ہوں۔ تو انھیں متروکہ کا دو تہائی حصہ ملے گا۔''(4النساء :11)

اس آیت کریمہ میں اگرچہ دو سے زائد لڑکیوں کا بیان ہوا ہے تاہم دو لڑکیوں کا بھی یہی حکم ہے۔جیسا کہ حدیث میں ہے ۔حضرت سعد بن ربیع غزوء احد میں شہید ہوگئے تو اس کی تمام جائیداد پر اس کے بھائی نے قبضہ کرلیا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان دونوں لڑکیوں کو ان کے چچا سے دو ثلث مال دلوایا۔(ترمذی :الفروض 2092)

(ب) بیٹیوں کو دو تہائی دین کے بعد جو باقی بچے وہ بہن کا ہے۔ کیونکہ وہ بیٹیوں کی موجودگی میں عصبہ  ہوتی ہے۔اور عصبہ وارث مقررہ حصہ لینے والوں کا بچا ہوا لیتا ہے۔امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے'' کہ بہنیں بیٹیوں کی موجودگی میں بطور عصبہ وراثت پاتی ہیں۔''اگر مرحوم کی بہن اپنا حصہ لڑکیوں پر خرچ کرنا چاہتی ہے تو یہ اس کی صوابدید  پر موقوف ہے۔

(ج) مرحومہ کی ساس کا رقم کا متعلق مطالبہ کرنا درست نہیں ہے کیونکہ وہ کسی صورت میں وارث نہیں بن سکتی۔ اسے چاہیے کہ وہ اپنے مطالبہ سے دستبردار ہو لہذا ہمارا مشورہ ہے کہ اگر لڑکیاں بالغ  ہوچکی ہیں۔تو موجودہ رقم ان کے ہاتھ پیلے کرنے پر صرف کردی جائے۔(واللہ اعلم بالصواب)

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:295

تبصرے