السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
لاہور سے عبدالمجید خاں دریافت کرتے ہیں کہ ا یک شخص فوت ہوا اسکے دو نواسے اور ایک نواسی اور ایک بہو بقید حیات ہیں۔مرحوم کا ترکہ قرآن وحدیث کی روشنی میں کیسے تقسیم ہوگا؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
میت کے قرابت داروں کو تین درجوں میں تقسیم کیا جاتاہے۔سب سے پہلے زوی الفروض کا درجہ ہے۔ان سے مراد وہ رشتہ دار ہیں۔ جن کا حصہ مقرر ہے۔ان کے بعد عصبات ہیں۔ان سے مراد میت کے وہ اقارب ہیں۔ جو زوی الفروض کے دینے کے بعدبقیہ ترکہ کے مستحق ہوتے ہیں۔اوراگر مقررہ حصہ لینے والے نہ ہوں تو وہ کل ترکہ لینے کے حق دار ہوتے ہیں۔زوی الفروض اور عصبات کے بعد تیسرا درجہ زوی الارحام کا ہے۔ ان سے مراد وہ تمام خونی رشتہ دار ہیں جو نہ زوی الفروض ہوں نہ عصبات صورت مسئولہ میں دونوں نواسوں اور ایک نواسی کاتعلق اس آخری درجے زوی الارحام سے ہے۔ان کی توریت کے متعلق متقدمین علماء میں اختلاف ہے۔جمہور صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین مثلا حضرت عمر رضی ا للہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عبدللہ بن مسعود رضی ا للہ تعالیٰ عنہ حضرت عبیدہ بن الجراح رضی ا للہ تعالیٰ عنہ حضرت معاذ بن جبل رضی ا للہ تعالیٰ عنہ حضرت ابو درداء رضی ا للہ تعالیٰ عنہ حضرت ابن عباس رضی ا للہ تعالیٰ عنہ زوی الارحام کی توریث کے قائل ہیں۔احناف اور حنابلہ کا بھی یہی موقف ہے۔جبکہ بعض صحابہ کرامرضوان اللہ عنھم اجمعین زوی الارحام کی میراث کے قائل نہیں ہیں۔مالکیہ اور شوافع کا بھی یہی رجحان ہے۔ان کےنزدیک اصحاب فرائض اور عصبات کے نہ ہونے کی صورت میں میت کا ترکہ بیت المال میں رکھا جائے۔بشرط یہ کہ بیت المال منتظم ہو۔اگر بیت المال کاباضابطہ نظام نہ ہوتو زوی الفروض یاعصبات کے نہ ہونے کی صورت میں زوی الارحام حق دار ہوں گے۔ بہرحال انسب نقطہ نظر یہی ہے کہ زوی الفروض اورعصبات کے بعد زوی الارحام ترکہ کے حق دار ہیں۔ قرآن وحدیث میں ا س موقف کی تائید میں متعدد اشارے ملتے ہیں۔پھر زوی الارحام کی توریث کے طریقہ میں بھی اختلاف ہے عام طور پر اس میں تین مذہب ہیں۔
ان کے نزدیک ترکہ پانے کا سبب اہل رحم ہوناہے۔اور اس میں سب برابر ہیں۔ اس لئے جو زندہ موجود ہوں ان کے درمیان ترکہ برابر تقسیم کردیا جائے۔ خواہ مرد ہو یا عورت قریبی ہو یادور کا رشتہ دار یہ مذہب متروکہ ہے۔کیونکہ کتاب وسنت سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔
ان کے نزدی قرب اور بعد کا لہاظ رکھا جائے۔ جو میت کے زیادہ قریب ہوگا۔وہ حقدار ہو گا۔ جیسا کہ عصبات میں ہوتا ہے۔نیز مذکرمؤنث کے مقابلے میں دو گنا حصہ دیا جائے گا۔احناف اسی کے قائل ہی۔
ان کے نزدیک زوی الارحام خود وارث نہیں ہیں۔بلکہ اپنے اصل وارث کی وجہ سے انہیں حصہ ملتا ہے۔مثلاً نواسی کو بیٹی کے قائم مقام کرکے اس کا حصہ دیا جاتا ہے۔جمہور اسی کے قائل ہیں صورت مسئولہ میں نواسے اور نواسی بیٹی کی وجہ سے وارث ہیں۔تو گویا میت اور زوی الارحام کے درمیان عورت کاواسطہ ہو اور عورت کا واسطہ برابری کو چاہتا ہے۔جیسا کہ مادری بھائی بہنوں میں ہوتا ہے۔اس لئے ترکہ تین حصوں میں تقسیم کرکے دو حصے دونوں نواسوں کو ایک حصہ نواسی کو دیا جائےبھاوج کا اس میں کوئی حصہ نہیں وہ ترکہ سے محروم ہے (واللہ اعلم)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب