سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(261) دو بیویوں کی اولاد میں تقسیم وراثت

  • 11477
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1827

سوال

(261) دو بیویوں کی اولاد میں تقسیم وراثت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک آدمی کی دو بیویاں ہیں اور دونوں ہی صاحب اولاد ہیں۔ پہلی بیوی کے بطن سے پانچ لڑکے اور چھ لڑکیاں ہیں۔جبکہ دوسری سے صرف ایک لڑکا پیدا ہوا ہے۔دوسری بیوی عرصہ ہوا فوت ہوچکی ہے۔اب مذکورہ شخص بھی فوت ہوگیاہے۔ اس کی جائیداد پسماندگان میں کیسے تقسیم ہوگی۔ کتاب وسنت کی روشنی میں فتویٰ دیں۔(السائل محمد شریف مظفر گڑھ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

واضح رہے کہ صورت مسئولہ میں مرحوم کے ورثاء ایک بیوہ چھ لڑکے اور چھ لڑکیاں ہیں قران مجید کے بیان کردہ ضابطہ  میراث کے مطابق اولاد کی موجودگی میں بیوہ کو آٹھواں حصہ ملتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿فَإِن كانَ لَكُم وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمّا تَرَ‌كتُم...﴿١٢﴾... سورة النساء

‘‘اوراگراولادہوتوان(بیویوں) کاآٹھواں حصہ ہے۔اس جائیداد سے جوتم چھوڑ چکے ہو۔''

بیوہ کو آٹھواں حصہ دینے کے بعد جو باقی بچے اسے اولاد میں اس طرح تقسیم کردیا جائے کہ لڑکے کو لڑکی کے مقابلے میں دو گنا حصہ ملے ۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿يوصيكُمُ اللَّـهُ فى أَولـٰدِكُم ۖ لِلذَّكَرِ‌ مِثلُ حَظِّ الأُنثَيَينِ...﴿١١﴾... سورةالنساء

''اللہ تعالیٰ تمھیں تمھاری اولادوں کے متعلق حکم دیتے ہیں کہ ایک لڑکے کو دو لڑکیوں کے برابر حصہ دیا جائے۔''

مذکورہ تصریحات کی روشنی میں متوفی کی جائیداد کے کل 144 حصے کیے جائیں ان میں سے 8/1 یعنی 18 حصص بیوہ کے لئے باقی 126 حصص 1:2 کی نسبت سے 14 حصص فی لڑکا اور 7 حصص فی لڑکی تقسیم کردیئے جائیں اس طرح لڑکوں کے کل حصے 84 اور لڑکیوں کے 42 حصے ہوں گے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:291

تبصرے