سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(260) بھانجی کو وارث بنانا

  • 11476
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 956

سوال

(260) بھانجی کو وارث بنانا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

احمد پور سے رابعہ خاتون لکھتی ہیں۔ کہ میری کوئی اولاد نہیں ہے صرف خاوند اور بھائی بہنیں بقید حیات ہیں میری جائیداد صرف ایک مکان ہے۔ میں نے ا پنی بھانجی کو بیٹی بنایا ہوا ہے۔جو میری خدمت بھی کرتی ہے کیا میری جائیداد سے اس بھانجی کا کوئی حصہ بنتا ہے۔قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب دیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بہن بھائیوں کی موجودگی میں بھانجی شرعاً حقدار نہیں ہے۔وفات کے وقت اگر  سوال میں زکر کردی رشتہ دار زندہ رہے تو مکان کے وارث ہوں گے تقسیم یوں ہوگی۔ کہ خاوند کو نصف اور باقی نصف بہن بھائی اس طرح تقسیم کریں کہ بھائی کو بہن سے دو گنا حصہ ملے سوال میں بہن بھائیوں کی تعداد ظاہر نہیں کی گئی اس لئے حصوں کا تعین نہیں ہوسکتا بھانجی کووراثت کے طور پر  کوئی حصہ نہیں ملے گا۔ چونکہ وہ خدمت گار ہے اس لئے اس کے حق میں وصیت کی جاسکتی ہے۔جس کا ضابطہ حسب زیل ہے۔

1۔وصیت کی صورت میں3/1 سے زائد نہ بہتر ہے۔کہ  اس سے کم حصہ کی وصیت کی جائے۔ کیونکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے وصیت میں ایک تہائی کو بہت زیادہ قراردیا ہے۔

2۔وصیت شرعی وارث کے لئے نہ کی جائے یعنی جن ورثاء کو بطور وراثت حصہ ملنا ہے۔ان کے لئے وصیت ناجائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فتح مکہ کے موقع پر ارشاد فرمایا تھا:'' اللہ  تعالی نے ہر وارث کو اس کا حق دے دیا ہے۔اب وارث کے لے وصیت درست نہیں۔''

3۔وصیت کسی ناجائز کام کے لئے نہ ہو اگر کسی ناجائز کام کام کے لئے وصیت کی یا کسی جائز وارث کے لئے وصیت کردی  تو اسے نافذ العمل نہیں قراردیا جائے گا۔بلکہ ایسی ناجائز وصیت کی اصلاح کرنا ضروری ہے ۔ قرآن کریم میں اس کی وضاحت موجود ہے۔

مذکورہ بالا شرائط کو ملحوظ رکھتے ہوئے بھانجی کے حق میں وصیت تو کی جاسکتی ہے۔ لیکن وراثت کے طور پر اسے کچھ نہیں ملے گا۔(واللہ اعلم بالصواب)

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:290

تبصرے