سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(254) اراضی کی تقسیم

  • 11470
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 769

سوال

(254) اراضی کی تقسیم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

محمد مصطفیٰ بذریعہ ای میل لکھتے ہیں۔ کہ ایک آدمی کے د و لڑکے اور دو لڑکیاں ہیں۔اس نے اپنی ایک لڑکی کے نام پ اپنی 88 ایکڑ زمین میں سے 10 ایکڑ زمین الاٹ کردی۔اس کے بعد ا س لڑکی نے اپنی اوراپنے لڑکے کے رضا مندی سے باپ سے ملنے والی زمین اپنے پوتے کے نام منتقل کردی۔ اب لڑکی کا بھتیجا مطالبہ کرتا ہے۔ کہ وہ  زمین واپس لی جائے۔ اور جس کے نام زمین باہمی ر ضامندی سے الاٹ کی  گئی تھی۔وہ و ا پس نہیں کرتا۔قرآن وحدیث کی روشنی میں اس کا کیاحل ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جو زمین لڑکی کو اپنے والد کی طرف سے ملی ہے۔وہ اس میں اپنی مرضی کے مطابق تصرف کرسکتی ہے۔ کیونکہ وہ اب اس کی ملکیت ہے۔اگراس نے اپنے قریبی وارث بیٹے کے موجودگی میں اس کی  رضا مندی سے  اپنے پوتے کے نام منتقل کردی ہے۔ تو اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں۔ کیونکہ یہ ہبہ کی ایک صورت ہے۔ اب بھائی کے لڑکے یعنی بھتیجے کو اس پر اعتراض کا کوئی حق نہیں ہے۔جب ہبہ برضا ورغبت بلا جبر واکراہ ہواتو اسے واپس نہیں لیا جاسکتا۔ حدیث میں ہے:'' کہ جو ہبہ دے کرواپسی کا مطالبہ کرتا ہے وہ کتے کی طرح جو قے کرنے کے بعد اسے چاٹتا ہے۔''(سنن ابی داؤد :البیوع 3540)

لہذا اس کا حل یہی ہے کہ پوتے کے نام الاٹ شدہ زمین واپس نہ لی جائے اورکسی دوسرے کو اس عطیہ پر کوئی اعتراض نہیں ہوناچاہیے کیونکہ یہ اچھے اور خوشگواار ماحول میں سر انجام پایا ہے۔(واللہ اعلم بالصواب)

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:287

تبصرے