سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(251) ترکہ سے فوت شدہ بہن یا اس کی اولاد کا حصہ

  • 11467
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 893

سوال

(251) ترکہ سے فوت شدہ بہن یا اس کی اولاد کا حصہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

لاہور  سے چوہدری محمد اقبال خریداری نمبر 3094 لکھتے ہیں کہ ہمارے والد محترم اکتوبر 1993ء میں وفات پاچکے تھے۔اور ان کے چار بچے یعنی دو بیٹے اور دو بیٹیاں بقید حیات ہیں۔ جبکہ ایک بیٹی ان کی وفات سے پہلے 1973ء میں فوت ہوچکی تھی۔ان کی اولاد میں سے دو بیٹے اور دو بیٹیاں شادی شدہ موجود ہیں۔ کیا مرحوم کے ترکہ سے فوت شدہ بہن یا اس کی موجود اولاد کو کچھ حصہ ملے گا یا نہیں؟قرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

وراثت کاایک ضابطہ ہے۔ کہ قریبی رشتہ داروں کی موجودگی میں دور والا رشتہ دار محروم ہوتاہے۔مثلاً بیتے کی موجودگی میں پوتا یا بیٹی کی موجودگی میں نواسہ یا نواسی محروم ہوگی۔ صورت مسئولہ میں مرحوم کے دو بیتے اور دو بیٹیاں ہی وارث ہوں گی۔ان کی موجودگی میں والد کی وفات سے پہلے فوت ہونے والی بیٹی یا اسکی موجودہ اولاد وارث نہیں ہوگی۔ ہاں مرحوم وصیت کے زریعے اپنے نواسے یا نواسیوں کودے سکتا تھا۔اور وہ بھی کل جائیداد سے 3/1 تک جائز ہے۔اس کے علاوہ کسی صورت میں مرحوم کی جائیدادسے انھیں حصہ نہیں مل سکتا ۔مرحوم کی اولاد اگر چاہے تو انہیں کچھ دے سکتی ہے یہ ان کی اپنی صوابدید پر موقوف ہے۔واضح رہے کہ موجودہ پسماندگان اس طرح جا ئیداد تقسیم کریں۔کہ لڑکے کو لڑکی سے دو گنا حصہ ملے۔ سہولت کے پیش نظر جائیداد کے کل چھ حصے کرلیے جائیں۔دو دو حصے فی لڑکا اور ایک ایک فی لڑکی تقسیم کردیاجائے۔ واضح رہے کہ امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  نے ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیاہے۔''پوتے کو وراثت اس وقت ملتی ہے جب بیٹا موجود نہ ہو''پھرحضرت زید بن ثابت  رضی ا للہ  تعالیٰ عنہ  کا قول نقل کیا ہے کہ پوتا بیٹے کی موجودگی میں وار ث نہیں ہوتا۔(صحیح البخاری :کتاب الفرائض)

اس طرح بیٹوں اور بیٹیوں کی موجودگی میں کسی بھی بیٹی کی اولاد محروم ہوتی ہے۔خواہ وہ بیٹی زندہ ہو یامرحوم سے پہلے فوت ہوچکی ہو لہذا نواسیاں نواسے اپنے نانا کی جائیداد کے کسی صورت میں حقدار نہیں ہیں۔(واللہ اعلم)28

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:283

تبصرے