سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(249) تقسیم وراثت

  • 11465
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 801

سوال

(249) تقسیم وراثت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

چیچہ وطنی سے محمد غفران لکھتے ہیں۔ کہ ایک  عورت فوت ہوئی ہے۔پسماندگان میں دو لڑکے اور چار لڑکیاں موجود ہیں۔ اس عورت نے کچھ رقم اپنے داماد کے پاس رکھی تھی۔اب ایک لڑکا اوردو لڑکیاں  رضا مند ہیں۔ کہ اس  رقم کو کسی مسجد یا مدرسے میں صرف کردیا جائے۔جب کہ دوسرے لڑکے اور لڑکیوں کو اس رقم کا علم نہیں ہے۔ اس رقم کے متعلق شرعی حکم کیا ہے؟ نیز ایک لڑکے کے پاس اس سے بھی زیادہ باپ کی رقم موجود ہے اور باپ فوت ہوچکا ہے۔لڑکا باپ کی رقم کسی کو دینے کے لئے تیار نہیں مذکورہ وارثوں کے علاوہ ایک پدری بھائی بھی موجود ہے۔ اس رقم کے متعلق شریعت کاکیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

واضح رہے کہ  مرنے کے بعد انسان جوکچھ اپنے پیچھے چھوڑتا ہے اس کے حقدار شرعی ورثاء ہوتے ہیں کسی دوسرے کو اس میں تصرف کرنے کاحق نہیں ہے اگرشرعی ورثاء برضا ورغبت میت کی طرف سے صدقہ وخیرات کرنے  پر آمادہ ہوں تو اسے خیراتی کاموں پر خرچ کیاجاسکتا ہے۔ان کی مرضی کے بغیر میت کی متروکہ جائیداد کو کسی اور مقام پر خرچ نہیں کیا جاسکتا  صورت مسئولہ میں جو رقم داماد کے پاس پڑی ہے۔اس کے آٹھ حصے کرلیے جائیں دو حصے فی لڑکا اور ایک حصہ فی لڑکی کے حساب سے اسے  تقسیم کردیا جائے۔داماد کو چاہیے کہ جن ورثاء کو اس رقم کا علم نہیں ہے انہیں اس کی اطلاع دے بلکہ ان کا حق ان کے حوالہ کردے اگر وہ اپنی مرضی سے صدقہ وخیرات کرنا چاہیں تو ایسا کیا جاسکتا ہے۔لیکن ان کی مرضی کے بغیر تمام رقم صدقہ کرنا درست نہیں ہے صرف ایک لڑکے اور لڑکی کاحصہ صدقہ کیا جائے جو اس کے صدقہ کرنے پر راضی ہیں۔باقی رقم ورثاء کو واپس کردی جائے۔سوال کی دوسری صورت کہ لڑکے کے پاس بھی با پ کی رقم موجود ہے۔اس کا پدری بھائی بھی زندہ ہے اس میں پدری  بھائی بھی شریک ہے لہذا باپ کی رقم کے دس حصے کر لئے جائیں دو دو حصے تینوں لڑکوں کواور ایک ایک حصہ لڑکی کو دے دیاجائے جس لڑکے کے پاس باپ کی رقم موجود ہے اسے چاہیے کہ وہ اپنا حصہ رکھ کرباقی رقم دوسرے بہن بھایئوں کے حوالے کردے ساری رقم پر قبضہ جمائے رکھنا حرام اور ناجائز ہے حقوق العباد کے معاملہ میں انسان کوخاص احتیاط کرنا چاہیے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:281

تبصرے