سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(244) جائیداد کی تقسیم کی وصیت

  • 11460
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1649

سوال

(244) جائیداد کی تقسیم کی وصیت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارا  ایک عزیز فوت ہوگیا ہے۔ پسماندگان میں ایک بیوہ دو بیٹیاں اور ایک پوتاہے اس نے وصیت کی ہے کہ میری جائیداد میں سے  1؍8 بیوہ کو اور باقی 7؍8 میں سے نصف میری دونوں بیٹیوں کو اور نصف میرے پوتے کو دیاجائے اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ آیا ایسا کرنا جائز ہے؟اگر یہ وصیت جائز نہیں ہے تو صحیح تقسیم کیسے ہوگی؟(سائل بشیر احمد مجاہد ملتانی)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

واضح ہو کہ وصیت کے زریعے جو تقسیم کی گئی ہے۔ وہ شریعت کے مطابق نہیں ہے شرعی تقسیم حسب زیل ہے :بیوہ کو اولاد کی موجودگی میں ایک بٹہ آٹھ دیا جائے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:'' اگر میت کی اولاد ہو تو ان(بیویوں ) کا آٹھواں حصہ ہے۔''(4/النساء :12)

بیٹیوں کو دو بٹہ تین ملتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:'' اگر میت کی صرف لڑکیاں ہوں تو ( دو ما) دو سے زیادہ کو د و بٹہ تین دیا جائے۔(4/النساء :11)

پوتا عصبہ ہے جو مقررہ حصہ پانے والوں سے بچا ہوا ترکہ لیتا ہے۔فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  ہے:'' مقررہ حصہ داروں کو حصہ دینے کے بعد جو باقی بچے وہ میت کے قریب تررشتہ دار کے لئے ہے۔''( صحیح بخاری: کتاب الفرائض)

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:279

تبصرے