سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(239) قرعہ اندازی میں انعامی پلاٹ

  • 11455
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 982

سوال

(239) قرعہ اندازی میں انعامی پلاٹ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

پھول نگرسے خورشیدہ بی بی سوال کرتی ہیں۔ کہ میرے دو بیٹے ہیں۔او ر مجھے برائے قرعہ اندازی حکومت کی طرف سے ایک پلاٹ الاٹ  ہوا۔ جس کی قیمت اس کی تعمیر پر اٹھنے والے جملہ اخراجات میرے بڑے بیٹے اور چھوٹی بیٹی نے برداشت کیے اب میرا چھوٹا بھائی فوت ہوچکا ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ مذکورہ پلاٹ جس کی پرچی میرے نام ہے۔ اپنے مرحوم بھائی کی اولاد کو دے دوں۔میرا بڑا بیٹا بھی ان کے حق میں دستبردار ہونے کو تیار ہے۔  کیا میں شرعی طور پر وہ مکان اپنے یتیم بھتیجوں کو دے سکتی ہوں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

واضح رہے کہ صورت مسئولہ میں پلاٹ میں تعمیر شدہ مکان کامالک وہی ہے۔ جس کو حکومت نے الاٹ کیا ہے اگرکسی دوسرے نے اس کی قیمت اداکی ہے۔ اور  اس کی تعمیر پر اٹھنے والے اخراجات برداشت کیے ہیں۔ تو ایسا کرنے سے کوئی دوسرا اس کا مالک نہیں بن سکے گا۔ اسے حسن سلوک ایثار اور ہمدردی کانام تو دیاجاسکتا ہے۔ لیکن انتقال ملکیت کی وجہ نہیں بن سکتا۔ اس کی وضاحت کے بعد بھی معلوم ہوناچاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں خود مختار بناکر بھیجا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے اللہ کی نعمتوں کو جس طرح چاہے استعمال کرسکتا ہے۔ مال وغیرہ   بھی اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے اس میں بھی  تصرف کرنے کا اسے پورا پورا حق ہے۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کافرمان  ہے۔''ہر مالک اپنے مال میں تصرف کرنے کا زیادہ حق رکھتا ہے۔ وہ اس حق کو جیسے چاہے استعمال کرسکتا ہے۔''(بیہقی :/178)

 لیکن اس تصرف کے لئے مندرجہ زیل باتوں کا خیال رکھا جائے:

٭ یہ تصرف کسی ناجائز اوحرام کام کے لئے نہ ہو۔

٭ جائز تصرف کرتے وقت کسی شرعی وارث کو محروم کرنا مقصود نہ ہو۔

٭ اگر یہ تصرف بطور ہبہ اولاد کے لئے ہے۔تو نرینہ اور مادینہ اولاد کے ساتھ مساویانہ سلوک پر مبنی ہو۔

٭ اگر یہ تصرف بطو روصیت عمل میں آئے تو کل جائیدادکے 3/1  سے یہ تصرف زائد نہیں ہونا چاہیے۔اور نہ ہی کسی شرعی وارث کے لئے وصیت کی گئی ہو۔ ان مذکورہ شرائط کو مد نظر رکھتے ہوئے سائلہ اپنی زندگی میں بقائمی ہوش وحواس مذکوہ کان اپنے مرحوم بھائی کی اولاد کو دسے سکتی ہے تاہم آئندہ پیدا ہونے والی کشیدگی کے پیش نظر اپنے چھوٹے بیٹے کو بھی اعتماد میں لے لیا جائے تاکہ باہمی اختلاف وناچاقی کے تمام راستے مسدود ہوجائیں  اور یہ نیکی کا کام بخیر وخوبی سرانجام پاسکے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:269

تبصرے