السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
فیصل آباد سے محمد شریف لکھتے ہیں۔کہ میں محکمہ واپڈا میں بطور میٹر ریڈر تعینات ہوں میرا کام دفتر سے باہر جاکر بجلی کےمیٹر چیک کرنا ہے۔محکمہ اس کے عوض مخصوص شرائط کے ساتھ T.A ادا کرتا ہے۔ یہ الاؤنس حاصل کرنے کےلئے مجھے مندرجہ زیل بیان حلفی دیناپڑتا ہے۔
1۔میں جہاں گیا ہوں وہ قطعی طور پردفتر سے 16 کلو میٹر دور ہے حالانکہ وہ فاصلہ اس سے کم ہوتا ہے۔
2۔اس ڈیوٹی پر میرے آٹھ گھنٹے صرف ہوئے ہیں۔حالانکہ میرا اتناوقت صرف نہیں ہوتا۔
3۔میرا قطعی طور پر T.A کے مطابق خرچہ ہوچکاہے۔ حالانکہ یہ بھی خلاف واقع ہوتاہےمیرا اتنا خرچہ نہیں ہوتا۔اس کے علاوہ T.A کا بل پاس کروانے کےلئے مجھے اصل رقم کا10 فیصدافسران بالا کوبطور رشوت دینا پڑتا ہے۔اب کیا اس طریقہ سےحاصل کیا ہوا پیسہ میرے لئے حلال ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مالی معاملات کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:'' تم لوگ آپس میں ایک دوسرے کے مال ناروا طریقہ سے مت کھاؤ۔''(2/البقرہ :188)
حدیث میں ہے '' کہ جو انسان جھوٹی قسم اٹھا کر کچھ مال ہتھیا لیتاہے۔قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس پر انتہائی ناراض ہوں گے۔ اور وہ شخص اللہ کی نظر رحمت سے بھی محروم رہے گا۔ بعض روایات میں ہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ نے جنت کو حرام کردیا ہے۔''(ابودائود سنن نسائی)
مذکورہ بالا ارشاد بانی اور فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر ناجائز طور پر مال کمانا اور اس کا استعمال کرناحرام ہے۔اس بنا پرصورت مسئولہ میں مذکورہ T.A لینے کا کوئی جوازنہیں ہے۔اور نہ ہی اس کا یہ حق ہے کہ رشوت دے کر اسے حاصل کیاجائے بلکہ رشوت کے بغیر بھی اگر ملتا ہے تو اس رقم کا لینا جائز نہیں ہے۔چہ جائیکہ رشوت جیسے گھناؤنے جرم کا بھی ارتکاب کیا جائے۔رشوت کے کاروبار کے متعلق فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔''رشوت دینے والا اور لینے والا دونوں جہنمی ہیں۔''بعض روایات میں ہے کہ ان دونوں کے درمیان جو واسطہ بنتا ہے۔ وہ بھی جرم میں برابر کا شریک ہے۔باعث افسوس تو یہ معاملہ ہے۔کہ محکمہ کی زیر نگرانی ایسے کام سر انجام پاتے ہیں۔ کیوں کہ افسران بالا کو علم ہوتا ہے۔کہ اہل کار کا فاصلہ کتنا ہے۔؟اور وہ کتنا وقت اس پر صرف کرتا ہے چونکہ اس خود ساختہ T.A کا دس فیصد ان کی جیب میں آنا ہوتا ہے۔اس لئے اہل کار کو جھوٹ بولنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ لہذ ا ایک مسلمان کے شایان شان نہیں ہے کہ وہ اس طرح حرام زرائع سے مال کمائے اور اپنی عاقبت کو برباد کرے۔(واللہ اعلم)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب