السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت میت کے غسل کا صحیح طریقہ کیا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
میت کے غسل کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ انسان میت کی شرم گاہ کو دھوئے اور پھر اسے غسل دینا شروع کرے۔ اعضائے وضو سے شروع کرے اور اسے وضو کرائے لیکن اس کے منہ اور ناک میں پانی داخل نہ کرے بلکہ کپڑے کے ایک ٹکڑے کو گیلا کر کے اس کے ذریعہ اس کے ناک اور منہ کو صاف کرے، پھر اس کے باقی جسم کو غسل دے اور پانی میں بیری کے پتے شامل کر کے غسل دے۔ بیری کے پتے کوٹ کر پانی میں ڈال دے اور انہیں ہاتھ کے ساتھ ملے تاکہ جھاگ پیدا ہو جائے، اس جھاگ کے ساتھ اس کے سر اور ڈاڑھی کو دھویا جائے اور باقی پانی لے کر باقی سارے جسم کو دھویا جائے کیونکہ اس طرح اس کا جسم بہت زیادہ صاف ہو جائے گا۔ غسل کے آخر میں کافور بھی استعمال کیا جائے۔ کافور مشہور خوشبو ہے، علماء نے لکھا ہے کہ اس کے فوائد میں سے ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ یہ جسم کو سخت کر دیتا ہے اور کیڑوں مکوڑوں کو دور بھگادیتا ہے۔ میت جسم پر اگر زیادہ میل کچیل لگا ہو تو اسے زیادہ بار بھی غسل دیا جا سکتا ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان خواتین سے فرمایا تھا جنہوں نے آپ کی بیٹی زینب رضی اللہ عنہا کو غسل دیا تھا:
«اغْسِلْنَهَا ثَلَاثًا أَوْ خَمْسًا أَوْ أَکْثَرَ مِنْ ذَلِکَ إِنْ رَأَيْتُنَّ ذَلِکَ» (صحيح البخاري، الجنائز، باب غسل الميت… ح:۱۲۵۳)
’’اسے تین بار یا پانچ بار غسل دو یا اگر ضرورت محسوس کرو تو اس سے بھی زیادہ بار غسل دے سکتی ہو۔‘‘
اس کے بعد میت کو صاف کر کے کفن پہنا دیا جائے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب