سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(220) کرنسی فروخت کرنے کا کاروبار

  • 11436
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2952

سوال

(220) کرنسی فروخت کرنے کا کاروبار

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

لاہور سے محمد عمر فاروق لکھتے ہیں ایک آدمی کرنسی کی خریدوفروخت کرتا ہے کیا یہ کاروبار جائز ہے نیز شیئرز کی خریدوفروخت اور اس کا نفع لیناجائز ہے مثلا ً ایک فیکٹری ایک کروڑ روپے کی ہے اس کے پچاس شیئرز مالک اپنے پاس رکھتا ہے اور باقی پچاس لوگوں میں فروخت کردیتا ہے یہ حصص خریدنے والے بھی کاروبار میں شریک ہوجاتے ہیں کیا ایسا کرنا جائز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کرنسی کے کاروبار کی دو صورتیں ہیں:

1۔ایک ہی ملک کے مختلف مقدار کے نوٹوں کا آپس میں تبادلہ کرنا۔

2۔ایک ملک کے کرنسی نوٹوں  کا دوسرے ملک کے کرنسی نوٹوں سے تبادلہ کرنا۔

ویسے تو ان کاغذی نوٹوں کی اپنی ذاتی کوئی قیمت نہیں ہے صرف کاغذ کایک ٹکڑاہے البتہ حکومت وقت کے اعلان کے بعد ثمن بن گئے ہیں۔اگرچہ یہ عرفی ثمن کے حامل ہیں تاہم ان کے زریعے کاروبار کرنا قانونی حیثیت اختیار کرگیا ہے اب اگر ایک ملک کے نوٹوں کا باہمی تبادلہ کرنا ہوتواس کی دو شرطیں ہیں۔

1۔مجلس عقد میں فریقین نقد بنقد تبادلہ کریں۔

2۔اس تبادلے میں برابری کو ملحوظ رکھاجائے۔

اگر کوئی 100 روپے کے نئے نوٹ 105 روپے میں فروخت کرتا ہے توشرعاً درست نہیں بلکہ ایسا کرنا صریح سود ہے یہ بھی واضح رہے کہ یہ برابری کرنسی نوٹوں کی تعداد اور گنتی کے لہاظ سے نہیں ہوگی بلکہ ان نوٹوں کی ظاہری قیمت کا لہاظ رکھاجائ گا لہذا سو روپے کے ایک نوٹ تبادلہ دس دس ر وپے کی دس نوٹوں سے جائز ہے اس تبادلہ میں اگرچہ ایک طرف ایک نوٹ ہے اور دوسری طرف دس نوٹ ہیں۔ لیکن ظاہری قیمت کے لہاظ سے ان دس نوٹوں کے مجموعہ کی قیمت سو روپے کے ایک نوٹ کے برابر ہے اس عقد میں بذات خود دو نوٹ یا ان کی تعداد مقصود نہیں بلکہ ان کی ظاہری قیمت مقصود ہے جو ان پر لکھی جاتی ہے اور جس کی یہ نوٹ نمائندگی کرتا ہے مختصر یہ ہے کہ ایک ملک میں رائج نوٹوں کے تبادلہ میں کمی وبیشی جائز نہیں ہے کیوں کہ ایک ملک کے مختلف کرنسی نوٹ ایک ہی جنس شمار ہوتی ہے اور ایک ہی جنس کے باہمی تبادلہ میں ادھار اور کمی بیشی منع ہے جیسا کہ اس کے متعلق متعدد احادیث  وار د ہیں۔

مختلف مماک کی کرنسی مختلف اجناس شمار ہوتی ہے ان میں کمی وبیشی تو جائز ہے لہذا ایک ریال کاتبادلہ پانچ دس اور پندرہ روپوں سےکرناجائز ہے لیکن اس میں ادھار جائز نہیں۔یہ تبادلہ نقد بنقد ہونا چاہیے۔اس لئے کرنسی کا کاروبار جائز ہے اور اس میں کمی بیشی کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔البتہ اس میں ادھار درست نہیں ہے بلکہ نقد بنقد ہونا چاہیے یہاں ایک اورسوال پیدا ہوتا ہے۔کہ بعض اوقات حکومت مختلف کرنسیوں کی قیمت مقرر کردیتی ہے۔ مثلا حکومت پاکستان  ریال کی قیمت 16 روپے اور ڈالر کی قیمت 60 ر وپے مقرر کردے تو کیا اس صورت میں حکومت کی مقرر کردہ قیمت کی مخالفت کرکے کمی بیشی کے ساتھ  تبادلہ جائز ہے یا نہیں یعنی اوپن مارکیٹ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

ہماری ناقص رائے کے مطابق حکومت کے مقرر ریٹ کی مخالفت کرتے ہوئے کمی وبیشی کے ساتھ تبادلہ کرنے میں سود لازم نہیں آتا کیوں کہ دونوں کرنسیاں جنس کےلہاظ سے مختلف ہیں اور مختلف اجناس کا کمی وبیشی کے ساتھ تبادلہ جائز ہے اور اس کمی وبیشی کی شرعاً کوئی حد نہیں ہے بلکہ یہ فریقین کی باہمی رضا مندی پر موقوف ہے اور حکومت کی اجازت سے اوپن مارکیٹ میں کاروبار ہوتا ہے   تاکہ حکومت کے ہاں زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو۔(واللہ اعلم)

سوال کا دوسرا جز شیئرز سے متعلق ہے شیئرز کی حقیقت یہ ہے کہ ایک کمپنی اپنا کاروبار چلانے کے لئے لائحہ عمل اور خاکہ شائع کرتی ہے۔ اور اپنے شیئرز جاری کرتی ہے۔اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ کمپنی کے لوگوں کو اپنے کاروبار میں حصے دار بننے کی دعوت دیتی ہے۔اس وقت کمپنی سے جو شخص بھی شیئرز خریدتا  ہے۔وہ شخص در حقیقت اس کمپنی کے کاروبار میں حصہ دار بن رہا ہوتا ہے اور کمپنی کے ساتھ شراکت کا معاملہ کرتاہے۔اگرچہ عرف عام میں یہ کہا جاتا ہے کہ اس نے شیئرز خریدے لیکن شرعی لہاظ سے یہ خریدوفروخت نہیں کیوں کہ  پیسے ادا کرنے سے اسے کوئی سامان وغیرہ نہیں ملتا ابتدائی طور پر شیئرز خریدنے کے لئے یہ شرط ہے کہ خریدنے والا اس با ت کا پتہ لگائے کہ یہ کمپنی کوئی حرام کاروبار توشروع نہیں کررہی مثلا: شراب کشید کرنے کی فیکٹری لگائی جارہی ہو یا سودی کاروبار کے لئے کوئی بینک کھولا جارہا ہو تو ابتدا اس کمپنی کے حصص خریدنا جائز نہیں ہیں۔لیکن اگر بنیادی طور پر حرام کاروبار نہیں بلکہ کسی جائز کاروبار کے لئے کسی کمپنی نے شیئرز جاری کیے ہیں۔ مثلاً: ٹیکسٹائل مل لگانا ہے تو اس صورت میں اس کمپنی کے شیئرز خریدنے میں کوئی قباحت نہیں ہے اب ان شیئرز کا دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے کہ جب ایک آدمی نے کمپنی کے جاری کردہ حصص خرید لئے۔ اور وہ اب کمپنی میں حصہ دار بن گیا تو پھر یہ شیئرز ہولڈر وقتاً فوقتاً اپنے شیئرز اسٹاک مارکیٹ میں فروخت کے لئے پیش کردیتا ہے اس اسٹاک مارکیٹ سے شیئرز خریدنے کے لئے بھی چند ایک شرائط ہیں:

1۔یہ شیئرز کسی حرام کا کاروبار میں ملوث کمپنی کے نہ ہوں ایسی کمپنی کے حصص خریدنا کسی حال میں جائز نہیں نہ ابتدائی طور پر جاری ہونے کے وقت اور نہ ہی بعد اسٹاک مارکیٹ سے ان کاخریدنا جائز ہے۔

2۔دوسری  شرط یہ ہے کہ اس کمپنی کے تمام اثاثے نقد  رقم کی شکل میں نہ ہوں۔بلکہ اس کمپنی نے جمع شدہ سرمایہ سے زمین خریدی ہونا یا بلڈنگ بنالی ہو اگر اس کمپنی کا اثاثہ بھی نقدی کی شکل میں ہے تو ان حصص کو کمی وبیشی کے ساتھ فروخت کرناجائز نہیں بلکہ ا سکی اصل قیمت کے برابر برابر خریدنا ضروری ہے۔کیوں کہ اس صورت میں دس  روپے کا شیئرز دس  روپے ہی کی نمائندگی کر رہا ہے جیسا کہ دس روپے کانوٹ دس  روپے کی نمائندگی کرتا ہے لہذا جب د س روپے شیئرز دس روپے کی نمائندگی کررہا ہے تو اس صورت میں اسے گیارہ نو روپے میں خریدنا یافروخت کرناقطعاً جائز نہیں ہے۔ لیکن اگر  کمپنی کے کچھ اثاثے منجمد شکل میں ہیں۔مثلاً اس رقم سے کمپنی نے خام  مال خرید لیا یا بلڈنگ بنالی یا مشینری خرید لی تو اس صورت میں دس  روپے کے شیئرز کو کمی وبیشی سے فروخت کرناجائز ہو گا۔(واللہ اعلم)

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:244

تبصرے