سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(216) ادھا میں وقت کے تعین سے ریٹ بڑھانا

  • 11432
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 985

سوال

(216) ادھا میں وقت کے تعین سے ریٹ بڑھانا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک اور صورت جو بازار میں رائج ہے۔کہ ایک آدمی ایک ماہ کے ادھار  پر مال لیتا ہے پھرمعینہ مدت تک ادائیگی نہیں کرسکتا توفروخت کارتقاضا کرتا ہے کہ جتنی رقم اس کے ذمے بنتی ہے نئی متوقع مدت کے مطابق اتنی رقم کے مال کا نیابل بنوالے پھر یہ بل زائد رقم کا  بنایا جاتا ہے۔جبکہ حقیقت میں نہ خریدار کوئی مال لیتا ہے۔ اور نہ ہی  فروخت کار کوئی مال دیتا ہے۔جتنی مدت خریدار بڑھا لے اتنانفع فروخت کار بڑھا لیتا ہے۔اس کے متعلق شرعاً کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر مجلس عقد میں پہلے سے بھاؤ اور ادائے قیمت کی میعاد طے کرلی گئی تھی۔ تو پھر اگر خریدار بروقت رقم مہیا نہ کرسکے تو از سر نو اضافہ کے ساتھ قیمت کا تعین کرنا جائز نہیں۔جیسا کہ صورت مسئولہ میں وضاحت کی گئی ہے۔اگر ایسا کیاگیا تو یہ واضح  طور پر سود ہے۔جس سے شریعت نے منع کیا ہے۔  فروخت کار کو ایسے موقع پر رواداری سے کام لینا چاہیے۔ کہ ادائیگی کی مدت قیمت میں اضافے کے بغیر بڑھادی جائے حدیث میں اس طرح کے تنگ دست کے ساتھ نرمی اور مذید مہلت دینے پر بہت فضیلت    آئی ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایک شخص کو صرف اس لئے معاف کردیاتھا۔ کہ وہ مفلوک الحال اور  تنگ لوگوں کو مزید مہلت دیاکرتا تھا؟اگر خریدار رقم  دیر سے ادا کرنے کا عادی مجرم ہے۔ تو اس کے سد باب کے لئے جرمانہ وغیرہ کیا جاسکتا ہے۔لیکن از سر نو سابقہ رقم کوبڑھا کر نیابل بنانا شرعاً حرام ہے ۔ایسا کرنا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ جنگ  کے مترادف ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:242

تبصرے