السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
رسول اللہ ﷺکا قول ہے ،’’اے اللہ!مجھے حالت مسکینی میں زندہ رکھ ،اور موت بھی مجھے حالت مسکینی میں دے اور (قیامت کے دن)مساکین کی جماعت میں میرا حشر فرما‘‘۔ اور دوسرا قول ہے ،’’اے اللہ میں کفر سے ،فقر سے ،اور عذاب قبرسے تیری پناہ چاہتا ہوں ‘‘۔ان دونوں اقوال رسول اللہ ﷺمیں تطبیق کی کیا صورت ہے ،نبی ﷺکا فقر سے پناہ پکڑنا متعدد احادیث میں وارد ہے تو کیا پہلی حدیث صحیح ہے ؟ آپ کا بھائی :ابو یا سرعبداللہ بدھ:1414ھ۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہاں حدیث صحیح ہے ترمذی :(2؍60)ابن ماجہ (2؍4126) ،ضیاءالمقدسی المختار اور عبداللہ بن حمید میں یہ حدیث لاتے ہیں ،اسی طرح الارواءرقم : (861) اور الصحیحہ (1؍555) میں برقم : (308) مذکور ہے اسے ابوسعید خدری ،انس بن مالک ،عباد بن صامت اور ابن عباس نے روایت کیا ہے ۔
اور امام ابن جوزی نے اسے موضوعات میں ذکر کرکے زیادتی کی ہے ،امام ابن حجر عسقلانی وغیرہ ان پر رد کیا ہے ۔
امام بیہقی نے فرمایا ہے ،’’اس کی وجہ میرے نزدیک یہ ہے کہ آپ ﷺنے اس کی مسکینی کا سوال نہیں کیا جس کا معنی قلت اور تنگدستی کی طرف لوٹتا ہے بلکہ اس مسکینی کا سوال کیا ہےجس کا معنی تواضع اور انکساری کی طرف لوٹتاہے حافظ ابن حجر تلخیص ص:(275)میں فرماتے ہیں امام ابن جوزینے اس حدیث کو موضوعات میں ذکر کرکے زیادتی کی ہے اور انہوں نے یہ اقدام اس لیے کیا ہے کہ انہوں نے اس حدیث کو آپ ﷺکی حالت وفات کے مباین سمجھا ہے کیونکہ آپﷺ بحالت کفاف تھے ،رجوع کریں صحیح الجامع (1711)رقم: (1261)،۔
اور بعض مصابیح اور مشکاۃ نے اسے (2؍447)باب فضل الفقراء میں ذکر کیا ہے مرقاۃ (10؍11)،
بعض نے کہا ہے ،’’مجھے متواضع بنا ،جابر اور متکبر بنا ،‘‘یہ نہیں کہا کہ مجھے فقیر بنا دے تا کہ محتاج اور حقیر ہونے کا وہم نہ رہے ۔
میں کہتاہوں :مذکورہ نقول سے دونوں مسئلوں کا جواب ثابت ہوگیا ۔
اور مال کے موجود ہونے سے آدمی غنی نہیں بن جاتا ،غنیٰ تو نفس کا غنیٰ ہے مال کی قلت سے آدمی حقیقی مسکین نہیں بنتا کیونکہ بہت سے نادار متکبر ہوتے ہیں اور نبی ﷺکا قول ،’’وعائل مستکبر‘‘بھی اس پر دلالت کرتا ہے کسی نے کہا ،’’ مسکینی کی دعا سے نبیﷺکی مراد مال کےساتھ قلت اشتغال ہے کیونکہ انسان کو حد کمال سے خارج کر دیتا ہےمرقاۃ میں اسی طرف اشارہ ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب