سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(212) نقد اور ادھار کی قیمت میں فرق

  • 11415
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2587

سوال

(212) نقد اور ادھار کی قیمت میں فرق

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک صورت بازار میں یہ بھی رائج ہے۔کہ اگر نقد ادائیگی ہوگی تو ریٹ یہ ہوگا اگر ادھار لوگے تواتنے دام زیادہ ہوں گے۔کیا نقدادھار کی  قیمت میں فرق کرنا شرعاً جائز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شرعی لہاظ سے نقداور ادھار کی صورت میں کسی چیز کی قیمت کو کم وبیش کرنا جائز ہے۔ بشرط یہ کہ مجلس عقد میں چیز کی مقدار اور ادائے قیمت کی میعاد مقرر کرلی جائے۔اگرچہ ادھار دینے کی صورتوں میں مختلف مدتوں کے مقابلے میں مختلف قیمتیں مقرر کرلی جائیں لیکن عاقدین کے درمیان عقد بیع کے وقت مختلف مدتوں اور قیمتوں کے درمیان کسی ایک مدت او ر قیمت کا تعین ہوناضروری ہے۔علامہ شوکانی  رحمۃ اللہ علیہ  نے ائمہ اربعہ اور  جمہور  فقہا اور محدثین کا مسلک بایں الفاظ بیان کیا  ہے۔'' کہ خریدوفروخت کے عمومی دلائل کے پیش نظر ادھا بیع میں نقد کی نسبت قیمت زیادہ کرنا جائز ہے۔بشرط یہ کہ خریدار اور فروخت کار ادھار یا نقد کا قطعی فیصلہ کرکے کسی ایک قیمت پر متفق ہوجائیں۔''(نیل الاوطار :5/172)

 اس بنا پر اگرکہے کہ میں یہ چیز  نقد اتنے میں اورادھاراتنے میں فروخت کرتاہوں اس کے  بعد کسی ایک بھاؤ پر ا تفاق کیے بغیر دونوں جداہوجائیں  تو جہالت ثمن کی وجہ سے یہ بیع ناجائز ہوگی۔لیکن اگرعاقدین عقد مجلس میں ہی کسی ایک شق اور کسی ایک ثمن پر ا تفاق کرلیں تو بیع جائز ہوگی  چنانچہ امام ترمذی  رحمۃ اللہ علیہ  لکھتے ہیں۔

''بعض اہل علم نے حدیث (( بيعتين في بيعته)) کی  تشریح بایں الفاط کی کہ'' بائع مشتری سے کہے کہ میں یہ کپڑا تمھیں نقد دس اور ادھار بیس روپے میں فروخت کرتا ہوں اور کسی ایک بیع پر اتفاق کرکے جدائی نہیں ہوئی لیکن اگر ان دونوں میں سے کسی ایک پراتفاق ہونے کے بعد جدائی ہوئی تو اس میں حرج نہیں کیوں کہ معاملہ  ایک پر طے ہوگیا ہے۔''(جامع ترمذی :کتاب البیوع)

نقد اور ادها ر قیمت میں فرق کرنے کے متعلق ہمارا مفصل  فتویٰ اہلحدیث مجریہ 7جون 2002ء شمارہ 22 میں شائع ہوچکا ہے۔

نوٹ

ہمارے ہاں بعض علماء ادھار کی وجہ سے قیمت میں اضافے کو ناجائز کہتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ قیمت میں یہ اضافہ مدت کے عوض میں ہے۔ اور جو اضافہ مدت مکے عوض میں ہو وہ سود ہے جسے شریعت نے حرام کیاہے۔ لیکن یہ اضافہ مدت کا عوض نہیں بلکہ مدت کی وجہ سے ہوتاہے۔کیوں کہ ایسا کبھی نہیں ہوتاکہ اس ادھا ر کی قیمت میں کچھ قیمت تو بیع کی ہو اور کچھ قیمت اس مد ت کی ہو جوعاقدین نے قیمت کی ادائیگی کے لئے طے کی ہے۔بلکہ بعض مخصوص معاشرتی حالات کے  پیش نظر ادھار میں جوسہولت میسرآتی ہے۔اس کی وجہ سے کچھ اضافہ ہوا ہے۔آسانی کے پیش نظر یوں بھی تعبیرکیاجاسکتا ہے۔کہ یہاں پر قیمت میں اضافہ ادھار کی وجہ سے ہے ادھار کے عوض میں نہیں ہے۔ تفصیل کے لئے ہمارے  فتوے کا مطالعہ کیجئے جس کا اوپر حوالہ دیاگیا ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:240

تبصرے