سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(208) نوٹوں کو نوٹوں کے بدلے مہنگا فروخت کرنا

  • 11409
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 3584

سوال

(208) نوٹوں کو نوٹوں کے بدلے مہنگا فروخت کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایمن آباد سے عبد الرحمٰن بھٹی لکھتے ہیں کہ بعض دکاندار نئے فوٹوں پر مشتمل /500 روپے والی کاپی//550رو پے میں فروخت کرتے ہیں اسی طرح کنڈیکٹر حضرات ۔/10 روپے کے عوض 9 روپے کے سکے لیتے ہیں اس کاروبار کی شرعاً کیا حیثیت ہے؟نیز نئےنوٹوں کے ہار بنانے پر جو محنت کی  جاتی ہے اس کے عوض 500  روپے کے  ہار پر پچاس روپے اضافی لیے جاتے ہیں۔قرآن وحدیث کی روشنی میں اس مسئلہ کی وضاحت فرمایئں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورت مسئولہ میں نوٹوں کا نوٹوں سے تبادلہ کی دو صورتیں ممکن ہیں۔

1۔ایک ہی ملک کی کرنسی کامختلف مقدار کے نوٹوں کا باہمی تبادلہ۔

2۔ایک ملک کی کرنسی کا دوسرے ملک کی کرنسی سے تبادلہ ۔ایک ہی ملک کے کرنسی نوٹوں کاتبادلہ مساوات اور برابری کے ساتھ جائز ہے۔اس میں نئے اور پرانے نوٹوں کی حیثیت ایک ہوگی۔اس کے برعکس اگر نئے نوٹوں کا لہاظ رکھتے ہوئے کمی بیشی کے ساتھ تبادلہ کیا جائے مثلاً110 روپے کے عوض 100 روپے کے نئے نوٹ لینا یہ ناجائز ہے۔کیوں کہ ایسا کرنا صریح سود ہے۔جسے شریعت نے حرام ٹھرایا ہے چونکہ ان کی قیمت خرید ایک جیسی ہے اور جہاں مقدار کااعتبار ہوتاہے وہاں اوراوصاف(نئے اور پرانے ہونا) کوکسی مقدار کے مقابلہ میں نہیں لایا جاسکتا کیوں کہ جو چیز شرعی طور پر یاعرف عام میں ثمن بن گئی ہو اس میں اوصاف کا اعتبار ختم ہوجاتاہے لہذا ایک روپیہ کا سکہ یا نوٹ خواہ وہ کتنا ہی نیا اور چمکدار ہو اس کی قیمت ایک ہی  روپیہ رہے گی۔اسی  طرح وہ سکہ یا نوٹ خواہ کتنا ہی پرانا اور میلا کچیلا ہو جائے۔اس کی قیمت بھی ایک ر وپیہ ہی ہوگی۔حالانکہ ان دونوں کے اوصاف  میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔لیکن بازاری اصطلاح میں یہ فرق کالعدم ہوچکا ہے۔اس بنا پر اگر ایک  روپیہ کو دو روپیہ کے عوض فروخت کیا جائے تو ناجائز ہوگا۔یہاں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ایک روپیہ کے مقابلے میں ایک روپیہ ہے۔ اور دوسرا  روپیہ جو زائد ہے۔ وہ دوسری طرف کے ر وپے کے کسی وصف(نئے ہونے) کے مقابلہ میں ہے یہ  تعبیر سرے سے غلط ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس دوسرے روپے کے مقابلے میں کوئی عوض موجود نہیں ہے لہذا یہ سود ہے۔

پھر یہ برابری اور مساوات کرنسی نوٹوں کی مقدار اور گنتی ک لہاظ سے نہیں ہوگی۔بلکہ مساوات میں ان نوٹوں کی ظاہری قیمت کا اعتبار کیا جائے گا۔جو اس پر لکھی ہوئی ہے۔لہذا سو روپے کے ایک نوٹ کا  تبادلہ  پچاس روپے کے    دو نوٹوں سے جائز ہے۔ اس تبادلے میں اگرچہ ایک طرف ایک نوٹ ہے۔ اور دوسری طرف دو ہیں۔ لیکن ظاہری قیمت کے لہاظ سے  پچاس روپے کے دو نوٹوں کی قیمت سو روپے کے ایک نوٹ کے برابر ہے لہذا مساوات گنتی میں نہیں بلکہ اس قیمت میں ہونی چاہیے جس کی وہ نوٹ نمائندگی کر رہا ہے۔ہاں اگر نوٹ بذات خود بحیثیت مادہ مقصود ہوں تو ان کی ظاہری قیمت مقصود نہ ہوگی جیسا کہ بعض لوگ مختلف ممالک کے سکے اور کرنسی نوٹ  تاریخی یادگار کے طور پرجمع کرتے ہیں۔ان کا مقصد تبادلہ یا بیع ان کے زریعے منافع حاصل کرنا نہیں تو بظاہر اس قسم کے تبادلے میں کمی وبیشی کی گنجائش نکل سکتی ہے۔لیکن سد باب کے طور پر اس سے بھی گریز کرنا چاہیے۔ مختلف ممالک کی کرنسیاں مختلف اجناس کی حیثیت رکھتی ہیں۔ان کے درمیان کمی بیشی کے ساتھ تبادلہ کرنا بالاتفاق جائز ہے لہذا ایک  ریال کا تبادلہ پاکستانی سولہ  روپے سے کیا جاسکتا ہے ۔اس  تفصیل سے معلوم ہواکہ نئے نوٹوں کے ۔/500  روپے والا بنڈل۔/550  روپے میں فروخت کرنا اسی طرح کنڈیکٹر حضرات کا دس  روپے کے عوض نو روپے کے سکے خریدنا شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔(واللہ اعلم بالصواب)

نئے نوٹوں کے ہار بنا کر زیادہ قیمت سے فروخت کرنا بھی شرعاً جائز نہیں ہے جب یہ کاروبار ہی جائز نہیں تو ا س کا حق محنت کے ناجائز ہونے  میں کیا شک ہوگا۔اس میں مندرجہ زیل قباحتیں پائی جاتی ہیں۔

1۔جب ۔/500  رو پے کا ہار۔/550 روپے میں خریدا جاتا ہے۔تو زائد پچاس روپے حق محنت نہیں بلکہ سود کو جائز قرار دینے کا ایک چور دروازہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب اس ہار کو واپس کیا جاتا ہے۔ تو اسے قیمت فروخت سےکم قیمت پر خریدا جاتا ہے۔اسے واپس کرنے پر محنت کامعاوضہ ختم کردینا اس بات کی دلیل ہے کہ حق محنت کو بطور بہانہ استعمال کیا جاتا ہے۔ اصل اعتبار ان پچاس روپے کا ہے۔جو اس  تبادلے میں بطور سود لیے گئے ہیں۔

2۔دین اسلام میں ضروریات زندگی کے لئے دولت خرچ کرناجائز اور مباح ہے۔ لیکن فضولیات زندگی پر سرمایہ برباد کرنے کی شرعاً اجازت نہیں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مال ضائع کرنے سے  منع فرمایا ہے۔(صحیح بخاری)

نوٹوں کے ہار پہننا انسانی ضرورت نہیں بلکہ اس کا یہ مقصد ہوتا ہے۔ کہ دولت کی نمائش اور اس پر فخر ومباہات کیا جاتا ہے۔اسلام اس قسم کی فضول حرکات کی اجازت نہیں دیتا۔ ممکن ہے کہ قیامت کے دن اس جرم کی پاداش میں اسے دھر لیا جائے لہذا بندہ مومن  کو اس قسم کے کاروبار اور نمائشی اعمال سے اجتناب کرنا چاہیے پھر قرآن کریم نے اس قسم کے مصرف پر دولت خرچ کرنے کو اسراف وتبذیر کا نام دیا ہے۔ جو اخوان الشیاطین کا وطیرہ تو ہوسکتا ہے۔ ایک پاک طینت انسان کے لئے اس کی گنجائش نہیں ہے ۔(واللہ اعلم بالصواب)

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:237

تبصرے