سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(199) بحالتِ اعتکاف جائز کام

  • 11398
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1478

سوال

(199) بحالتِ اعتکاف جائز کام

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

لا ہو ر سے اعبد القہا ر لکھتے ہیں کہ معتکف بحا لت  اعتکا ف  کو ن کون  سے کا  م کر سکتا ہے اور کو ن کو ن سے کا م  اسے نہیں کر نے چا ہئیں  قرآن و حدیث  کی روشنی  میں تفصیل  سے لکھیں ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

لغوی طور پر  اعتکا ف  کا معنی  روک  لینا اور بندرکھنا ہے اور شرعی  اصطلاع  میں معتکف  ہو نے  کا مطلب یہ ہے  کہ آدمی  عبا دت  کے لیے رمضان المبا رک  کے آخری دس دن عبادت  میں گزار ے اور اپنے  شب روز  کو ذکر  الہیٰ کے لیے  مختص کر دے  اس اس انداز سے جو انسان  اعتکاف کر ے گا  اس کے لیے  فضیلت  حدیث  میں با یں  الفا ظ  بیان  ہو ئی ہے :"جو انسا ن اللہ کی  رضا جو ئی  کے لیے  صرف ایک دن کا  اعتکا ف  کرتا  ہے اللہ  اس کے اور جہنم  کے درمیا ن  تین خندقوں  مو حا ئل کر دیں گے  اور ایک خند ق  کے دونو ں  کنا رو ں کا فا صلہ  مشرق  سے مغر ب  تک ہو گا۔(طبرا نی با سناد حسن )

معتکف  مندرجہ  ذیل کام بحا لت  اعتکا ف کر سکتا ہے

جوا ئج ضروریہ کے لیے مسجد سے  با ہر  نکل  سکتا  ہے اس سے مرا د  یہ ہے  کہ اگر  مسجد  میں قضا ئے  حا جت  کا انتظا م  نہیں  تو با ہر  جا سکتا  ہے یا کھا نے  وغیرہ  کا بند وبست  نہیں  یا گھر  سے لا نے  والا  کو ئی نہیں تو کھا نے  کے لیے  گھر  جا سکتا ہے ۔ غسل کر نا بھی جا ئز ہے  خوا ہ  وہ فرض  ہو یا  نظا فت  و صفا ئی  کے حصو ل  کے لیے ہو سر میں کنگھی  کر نا اور نا خن کا ٹنا بھی جا ئز ہے  آرا م  کے لیے  مسجد  میں چا ر  پا ئی  بچھا نا  بھی  مبا ح ہے بو قت ضرورت  معتکف  سے با ت بھی کی  جا سکتی  ہے  اور معتکف سے ملا قا ت  کر نے میں   بھی کوئی حرج نہیں ہے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  اپنی ازواج  مطہرات سے گفتگو فر ما تے اور انہیں مشورہ دیتے تھے نیز ازواج مطہرا ت  رضی ا للہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کےپا س بحا لت  اعتکا ف مسجد میں ملا قا ت کے لیے آ جا تھیں۔

معتکف کے لیے مندرجہ ذیل امو ر بحالت اعتکا ف نا جا ئز ہیں

معتکف چنا نچہ اللہ کی رضا جو ئی  کے لیے  خو د کو مسجد میں روکتا ہے اس لیے  اسے فضو ل با تو ں اور لا یعنی گفتگو  سے پر ہیز کر نا چا ہیے  اور معتکف  کو اپنے قول  و کر دار  میں عا م  انسا نو ں  سے ممتا ز  ہو نا چا ہیے ۔دورا ن  اعتکا ف کسی  بیما ر  کی تیما داری  بھی نہیں  کی جا سکتی  ہا ں  اگر  گزراتے  ہو ئے  بلا تو قف  کسی بیما ر  حا ل چا ل  پو چھ  لے  تو  جا ئز   ہے ، (سنن ابی داؤد:کتا ب الصوم )

معتکف  کو جنا زہ  میں بھی  شر یک  نہیں  ہو نا چا ہیے  اور اسے  ضروری  حاجت  کے بغیر  مسجد  سے با ہر  نہیں  نکلنا  چا ہیے  اگر مسجد میں کو ئی  جنا زہ  آجا ئے  تو اس  کے  پڑ ھنے  میں  چندا ں  حرج  نہیں  ہے ۔(سنن ابی داؤد کتاب  الصیا م )

اختیا م  اعتکا ف  کے مو قع  پر دھو م  دھا م سے نکلنا یا  فو ٹو  اتروانا بھی نا جا ئز ہے ۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:221

تبصرے