سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(42) رضی اللہ عنہ کا علماء کے لئیے استعمال

  • 11369
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2575

سوال

(42) رضی اللہ عنہ کا علماء کے لئیے استعمال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

فاضل بھائی فردل نے مجھ سے پوچھا کہ علماء ور اولیاء کے لیے کلمۃ العرضیہ(رضی اللہ عنہ کہنا )کا استعمال جائز ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہاں تین قسم کے الفاظ ہیں:(1)۔صلوٰة‘(ﷺ)‘2۔العرضیه(﷜)۔(3)۔الرحمة(﷫)

علماء نے ’’الصلوٰۃ‘‘رسول االلہﷺاور انبیا ءکے لیے مستحب قرار دیا ہے اور کسی کے لیے نہیں اسی وجہ سے ابن عباس﷜ شافعی اور مالک وغیرہ نے بنیﷺاور انبیاء﷤کے علاوہ کے لیے ’’الصلوۃ‘‘مکروہ کہا ہے ‘ابن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں’’میں نہیں جانتا کہ ’’الصلوۃ‘‘بنیﷺکسی کا کسی کے لیے مناسب ہو ‘ابن عباس﷜نے یہ اس وقت کہا جب شیعوں کا ظہور ہوااور وہ ’’الصلوۃ‘‘علی﷜کے لیے کہتے تھے اور کسی کے لیے نہیں ۔تو یہ ممنوع و مکروہ ہے جیسے کہ ابن عباس ﷜نے فرمایا۔

علامہ آلوسی اپنی تفسیر روح المعانی(11؍6)سورۃ توبہ میں اسے ترجیح دی ہے اور کہا ہے کہ صدقہ وصول کرنے والے کا زکوٰۃ ادا کرنے والے کے لیے ’’الصلوۃ‘‘کہنا درست نہیں ‘وہ کہتے ہیں کہ انبیاء وملائک کے علاوہ کسی کے لیے ’’صلوۃ‘‘نہ کہے البتہ بالتبع کہا جا سکتا ہے ۔(صلی الله علی النبی وآله وصحبه ومن تبعهم باحسان )کیونکہ ’’الصلوۃ‘‘جو تعظیم ہے دیگر دعاؤں میں نہیں تو یہ انبیاء اور ملائکہ کے علاوہ اور کسی کے لیے مناسب نہیں ۔

پھر علماء کا اختلاف ہے کہ اس کا اتعمال غیر انبیاء وملائکہ کے لیے مکروہ تحریمی ہے یا مکروہ تنزیھی ہے یا خلاف اولی ہے صحیح بات یہ ہے کہ یہ مکروہ تحریمی ہے کیونکہ اہل بدع کا شعار ہے اس لیے علی﷤ کہنا جائز نہیں ۔کیونکہ غائب کے صیغے کے ساتھ سلام کہنا انبیاء اور ملائکہ کے علاوہ کسی لیے جائز نہیں اور اس پر اجماع ہے ۔پھر کہا کہ ظاہرتو یہی ہے کہ امام نووی نے کہا ہے منع صلوۃ کی علت یہ ہے کہ یہ اہل بدعت کا شعار ہے اور سلف کی زبان میں یہ انبیاء اور ملائکہ کے لیے مخصوص ہے جیسے عزوجل اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے اس لیے محمد عزوجل نہیں کہا جائیگا اگرچہ آپﷺعزیز اور جلیل ہیں۔

قاضی عیاضکہتے ہیں :محققین جس طرف گئے ہیں اور میں بھی اس طرف مائل ہوں وہ وہی ہے جو مالکاور سفیاننے کہا ہے اور اسے بہت سے فقہاء او رمتکلمین نے اختیار کیا ہے کہ صلوۃ سلام کی تخصیص بنیﷺاور انبیاء کے لیے ہے ۔جس طرح تنزیہ اور تقدیس اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہے اور ان کے علاوہ جو ہیں ان کا ذکر عفران ور ضا کے ساتھ کیا جائے غیر انبیاء پر صلوۃ ‘پڑھنے کی صورت میں رافضہ سے مشابہت ہو جائے گی جو جائز نہیں۔پھر کہا کہ اگرقصد تشبیہ نہ ہو تو جائز ہے انتھی تلخیص کے ساتھ ۔

اسی طرح نووی کی شرح مسلم(1؍346)میں ہے ۔

دوسرا قول:محقین کہتے ہیں صلو ۃ ولسلام غیے انبیا اور لائکہ کے لیے بھی جائز ہے خوا ہ تبعا ہو یا منفرد کسی شخص کو خاص ن کیا جاۓ۔اس قول کے دلائل یہ ہیں :

﴿هُوَ الَّذى يُصَلّى عَلَيكُم وَمَلـٰئِكَتُهُ...٤٣﴾...سورة  الاحزاب

(اللہ )وہی ہے جو تم پر اپنی رحمتیں بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے (تمھارے لیے دعا ئے رحمت کرتے ہیں )

ملائکہ مومنوں پر درود بھیجتےہیں اور وہ غیر انبیاء ہیں ۔

دوسری دلیل:بنی ﷺنے فرمایا‘فرستے اس شخص پر (حو وہاں بیھٹا رہے جہاں اس نے نماز پڑھی ہے درود(رحمت کی دعائیں کرتے ہیں )بیھجتے ہیں ‘نکالا ہے اس کو شیخین نے جیسے کہ مشکوٰۃ (1؍86)میں ہے ۔

تیسری دلیل :خدیث قبض روح میں ہے ،’’اللہ تجھ پر صلوٰۃ (رحم )کرے اور اس بدن پر جس تو نے اباد کر رکھا ہے ‘‘ نکالا اس کو احمد اور مسلم (2؍286)نے اور سند اس کی صحیح ہے اور اس  طرح  مشکوۃ (1؍141)میں ہے ۔

چوتھی دلیل:صحیح بخاری میں بنیﷺسے روایت ہے آپ ﷺنے فرمایا :

«اللھم صل علی آل ابی او فٰی»

(اے اللہ !ابو اوفی کی اولاد پر رحم فرما !)

پانچویں دلیل :

«اللھم صلی علی محمد ولا آله محمد »

میں ہم نے غیر انبیاء پر بھی درود پڑھا لیکن یہ تبعا ہے ۔

چھٹی دلیل :علی ﷜نے عمر ﷜کے لیے فرمایا :صلی اللہ علیك ‘‘امام ابن تیمیہ نے الفتاوٰی (22؍472۔473)یہ مع تفصیل ذکر کیا ہے ۔

ساتویں دلیل :امام ابوداؤد نے (1؍22)میں باپ باندھا ہے باب الصلوۃ علی غیرالنبیﷺپھر ذکر کیا کہ ایک عورت بنی ﷺکو کہا ’’صلی علی وعلی زوجی ‘‘میرے او رمیرے خاوند کے لیے دعا فرمائیں تو نبی ﷺنے فرمایا :صلی اللہ علیك وعلی زوجك ‘‘اللہ تجھ پر اور تیرے حاوند پر رحم فرمائے ۔اس کی سند صحیح ہے جیسے کہ کہا الشیخ نے صحیح ابوداؤد (1؍286)میں ۔

آٹھویں دلیل:کتاب و سنت میں اس کی ممانعت نہیں آئی کچھ تفصیل سخاوی کی القول البدیع ص(62)میں ہے ترضیہ (﷜)اور (﷫)سب کے لیے جائز ہے ۔

جیسے امام نوینے الاذکار ص:(109)میں کاکہا ہے ۔فصل :ترضی اور ترحم اور صحابہ تابعین اور ان کے بعد علماء عابدین اور سب اچھے لوگوں کے لیے مستحب ہے پس کہا جاتا ہے ’’﷜ او ر﷫ اور اس جیسے دیگر کلمے اور علماء میں سےجو کہتے ہیں کہ ’’﷜‘‘صحابہ کے ساتھ خاص ہے اور ان کے علاوہ کسی کے لیے نہیں کہا جاسکتا تو یہ درست نہیں اور نہیں مانی جاسکتی بلکہ صحیح جس پر جمہور ہیں یہی ہے کہ یہ سب کے لیے مستحب ہے اور جلائل اس کے اکثر اور ناقابل حصر ہیں۔

اگر مذکورہ صحابہ اور صحابی کا بیٹا ہو تو کہے :قال ابن عمر رضی اللہ عنھما اسی طرح ابن عباس ابن زبیر‘ابن جعفر‘اسامہ بن زید وغیرہ تا کہ اسے اور اس کے باپ دونوں کو شامل ہو ۔ حافظ فتح الباری(3؍282)میں فرماتے ہیں اس اس حدیث غیر انبیاء پر صلوٰۃ کے جواز پر استدلال کرتے ہیں مالک اور جمہور اسے مکروہ سمجھتے ہیں ‘ابن التین کہتے ہیں ،’’اس حدیث کی طرف میلان کیا جاسکتا ہے ،‘‘ دیکھیں مشکوٰۃ:(1؍156)مرقاۃ:(4؍126)بیہقی نے (سنن کبرٰی) (2؍152)میں کہا ہے ’’باب ھل یصلی علی غیرالنبیﷺباب ہے اسبیان میں کہ غیر بنی پر صلوٰۃ کہا جاتا ہے ‘‘پھر تین مذکورہ حدیثیں ذکر کی ہیں دیکھیں مجمع الذوائد للبھیثمی(10؍166)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ الدین الخالص

ج1ص115

محدث فتویٰ

تبصرے