السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بعض مخصوص مہینوں ‘دنوں اور راتوں کی نمازوں کے بارہ میں بتائیں ‘کیا یہ ثابت ہیں؟مثال کے طور پر جس نے ذالحجہ کے مہینے میں اتنی اتنی رکعت نماز پڑھی تو اسے اتنا اتنا ثواب ملے گا اور جس نے محرم میں نماز پڑھی اور جس نے ہفتے کی رات بیس رکعت پڑھی اس کے لیے اتنا اتنا ہے ‘تو کیا یہ نمازیں مستحب ہیں؟(اخوکم :نورالحق وشوکت)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہمارے بنی اور مقتدیٰﷺرات دن میں فرائض ‘سنت اور نوافل ملا کر چالیس رکعت پڑھا کرتے تھے اور کبھی کبھی عارض کی وجہ سے اس سے زیادہ بھی پڑھتے تھے ‘لیکن یہ مخصوص مہینوں ‘راتوں اور دنوں کی نمازوں کا کوئی اصل نہیں یہ بعض جاہلوں نے گٹھررکھی ہیں جیسے (موضوعات لابن الجوزی :3؍113)میں ہے ۔اور امام ابن قیم رحمہ اللہ نے المنار المنیف:(ص:95)میں کہا ہے :’’ان میں سے دنوں اور راتوں کی نمازوں کی احادیث ہیں جیسے اتوار کے دن کی نماز ‘اتوار کے دن کی نماز‘اتوار کی رات کی نماز ‘سو مو ارکے دن اور رات کی نماز یہاں کے ہفتے کے آخری دن تک تو یہ سب کی سب احادیث جھوٹ ہیں‘بعض کا ذکر آگے ہو چکا ‘اسی طرح صلوۃ الرغائب کی احادیث ہیں رجب کے اول جمعہ کی رات یہ سب کی سب جھوٹ ہیں اور رسول اللہﷺکی طرف گھڑی گی ہیں ۔
میں کہتا ہوں :یہ نمازیں امام غزالی نے ’’احیاء‘‘میں اور عبدالقادر جیلانی نے ’’غنیہ‘‘میں وارد کی ہیں اور ان پر رد کیا ہے ہر اس شخص نے جس نے موضوعات لکھی ہیں جیسے (ابن جوزی :3؍113)تفصیل کے ساتھ (143)اور ابن حجر نے تبین العجب بماوردفی فضل رجب ص(19۔12)امام سیوطی نے النلائی المصنوعہ:290۔293) میں ‘ابن عراق نے تنذیۂالشریعۃ المرفوعہ:(2؍90۔92)میں ۔مولانا عبدالحی نے الآثار المرفوعہ :(290۔293)میں الشیخ الالبانی نے السلسلۃ الضعیفہ میں ۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب