سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(31) لفظ مولیٰ اور مولانا کا استعمال جائز ہے

  • 11343
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1972

سوال

(31) لفظ مولیٰ اور مولانا کا استعمال جائز ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا لفظ’’مولانا ‘‘ یا ’’مولیٰ‘‘ کا استعمال اللہ کے علاوہ انسان ‘جن اور عالم کے لیے جائز ہے؟ اخوکم:محمد ایوب۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ولا حول ولا قوة الا باللہ۔

بہت ساری احادیث کی وجہ سے یہ بلا کراہت جائز ہے۔

پہلی حدیث:ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

«لاَ يَقُلْ أَحَدُكُمْ: أَطْعِمْ رَبَّكَ وَضِّئْ رَبَّكَ، اسْقِ رَبَّكَ، وَلْيَقُلْ: سَيِّدِي مَوْلاَيَ، وَلاَ يَقُلْ أَحَدُكُمْ: عَبْدِي أَمَتِي، وَلْيَقُلْ: فَتَايَ وَفَتَاتِي وَغُلاَمِي »

(تم میں سے کوئی یہ نہ کہے کہ اپنے رب کو پلا‘اپنے رب کو  کھلا‘اپنے رب کو وضو کرا‘اور نہ کوئی یہ کہے کہ میرا رب ‘بلکہ کہے میرا سید ‘میری مولیٰ‘اور تم میں سے کوئی یہ نہ  کہے کہ میرا بندہ یا میری بندی ‘چاہئے کہ کہے میرا لڑکا میری لڑکی‘میری غلام) بخاری:(3/124)‘مسلم: (2/316)۔

اور الشیخ البانی رحمہ اللہ تعالیٰ  نےالصحیحہ :(2/55) میں کہاہے کہ السید ((اللہ)) اور حدیث مرفوع میں کہیں نہیں ثابت کہ مولیٰ اللہ ہے جب السید کے لفظ کا اطلاق غلام کے آقاکے لیے جائز ہے تو مولیٰ کا لفظ بطریق اولیٰ اس پر بولا جا سکتا ہے۔خصوصاً اس لفظ کا اطلاق ادنیٰ ٰٰ (غلام) پر بھی ہوتا ہے جیسے کلام حافظ میں گزر چکا۔

دوسری حدیث:براء بن عازب سے روایت ہے کہتے ہیں کہ رسو ل اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے  صلح(حدیبیہ)کی اور اس روایت میں کہ:

« أَنْتَ مِنِّي وَأَنَا مِنْكَ»، وَقَالَ لِجَعْفَرٍ: «أَشْبَهْتَ خَلْقِي وَخُلُقِي»، وَقَالَ لِزَيْدٍ: «أَنْتَ أَخُونَا وَمَوْلاَنَا»

( آپ نے علی رضی اللہ عنہ کو فرمایا:’’آپ ہمارے بھائی اور مولا ہیں‘‘)۔(متفق علیہ) مشکوٰۃ:(2/293)

تو  یہ موھوم الفاظ میں سے نہیں کہ استعمال اسکا ناجائز ہو بلکہ اس کے معانی بہت ہیں اور چودہ تک پہنچتے ہیں اور یہ اللہ اور غیر اللہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

اور جس حدیث میں آیا ہے کہ غلام اپنے مالک کو مولا نہ کہے۔(مسلم :2/228)

تو اس زیادت کا ثبوت محل نظر ہے جیسے حاقظ  رحمہ اللہ تعالیٰ نے فتح الباری میں کہا ہے ‘امام مسلم رحمہ اللہ تعالیٰ  نے اس حدیث میں اعمش پر اختلاف بیان کیا ہے کہ بعض نے اس زیادۃ کا ذکر کیا ہے اور بعض نے حذف کیا ہے۔اور عیاض  رحمہ اللہ تعالیٰ   کہتے ہیں: کہ اس کا حذف زیادہ صحیح ہے‘قرطبی  رحمہ اللہ تعالیٰ  کہتے ہیں:’’اس کا حذف مشہور ہے‘‘اور کہا ہے کہ تاریخ کا علم نہ ہونے کی وجہ سے جمع مشکل ہے تو اس تعارض میں ترجیح اختیار کی الخ)مراجعہ کریں الصحیحہ :(2/453-454)

کتاب الادب لابی داؤد:(2/332)میں وارد ہے :((اور چاہئےکہ کہے میرے مولیٰ))۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ الدین الخالص

ج1ص93

محدث فتویٰ

تبصرے