السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نور ہیں؟ جیسے کہ بریلویوں کا دعوی ہے ۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ومن اللہ الصدق والصواب۔ اس مسئلے پر دلائل ذکر کرنے کی حاجت نہیں کیونکہ یہ مسئلے دین میں بدیہی طور پر ثابت ہے ،جس کا علماء در کنار عوام بھی علم رکھیے ہیں۔
لیکن یہاں ایک خبیث جاہل اور قلیل ٹولہ ہے جس کا یہ دعوی ٰ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بشر نہیں اور ساتھ یہ بھی دعویٰ ہے وہ محبان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور تعظیم کرتے ہیں حلانکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں بڑے ظالم ہیں اور سوائے متشابہات کی تابعداری کے ان کے پاس ابنے دعوے کے لیے کتاب و سنت کے سرے سے کوئی دلیل نہیں۔ تو ہم کہتے ہیں کہ کتاب و سنت ‘اجماع و امت اور قیاس دلائل بہت زیادہ ہیں جن میں سے بعض یہ ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا قول ہے :
﴿قُل إِنَّما أَنا۠ بَشَرٌ مِثلُكُم يوحىٰ إِلَىَّ ...١١٠﴾ ...سورة الكهف
(آپ کہہ دیجٔیے کہ میں تو تم جیسا ایک انسان ہوں(ہاں )میری جانب وحی کی جاتی ہے۔)
اور اللہ تعالیٰ کا قول:
﴿وَما جَعَلنا لِبَشَرٍ مِن قَبلِكَ الخُلدَ...٣٤﴾...سورة الانبياء
(آپ سے پہلے کسی انسان کو بھی ہم نے ہمیشگی نہیں دی۔)
اور اللہ تعالیٰ کا قول:
﴿وَما أَرسَلنا مِن قَبلِكَ إِلّا رِجالًا نوحى إِلَيهِم ...١٠٩﴾ سورة يوسف
(آپ سے پہلے ہم نے بستی والوں میں جتنے رسول بھیجے ہیں سب مرد ہی تھے جن کی طرف ہم وحی نازل فرماتے گئے۔)
اور اللہ تعالیٰ کا قول:
﴿وَلَقَد أَرسَلنا رُسُلًا مِن قَبلِكَ وَجَعَلنا لَهُم أَزوٰجًا وَذُرِّيَّةً...٣٨﴾ ...سورة الرعد
(ہم آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیج چکے ہیں اور ہم نے ان سب کو بیوی بچوں والا بنایا تھا۔)
اور اللہ تعالیٰ کا قول:
﴿فَقالوا أَنُؤمِنُ لِبَشَرَينِ مِثلِنا وَقَومُهُما لَنا عـٰبِدونَ ...٤٧﴾ ...سورة المؤمنون
(کہنے لگے کہ کیا ہم اپنے جیسے دو شخصوں پر ایمان لائیں۔حلانکہ خود اس کی قوم (بھی) ہمارے ما تحت ہے۔)
اور اللہ تعالیٰ کا قول:
﴿قالوا إِن أَنتُم إِلّا بَشَرٌ مِثلُنا ...١٠﴾ ...سورة ابراهيم
(انہوں نے کہا کہ تم تو ہم جسیے ہی انسان ہو۔)
اور اللہ تعالیٰ کا قول:
﴿قالَت لَهُم رُسُلُهُم إِن نَحنُ إِلّا بَشَرٌ مِثلُكُم وَلـٰكِنَّ اللَّـهَ يَمُنُّ عَلىٰ مَن يَشاءُ ...١١﴾...سورة ابراهيم
ان کے پیغمبروں نے ان سے کہا کہ یہ تو سچ ہے کہ ہم تم جسیے انسان ہیں لیکن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سےجس پرچاہتا ہے اپنا فضل کرتا ہے۔)
اور اللہ تعالیٰ کا قول:
﴿هَل كُنتُ إِلّا بَشَرًا رَسولًا ...٩٣﴾... سورة الاسراء
(میں تو صرف انسان ہی ہوں جو رسول بنایا گیا ہوں۔)
بشریت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں وارد احادیث:
پہلی حدیث: رافع بن خدیج کہتے ہے :
«قَدِمَ نَبِيُّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ، وَهُمْ يَأْبُرُونَ النَّخْلَ، يَقُولُونَ يُلَقِّحُونَ النَّخْلَ، فَقَالَ: «مَا تَصْنَعُونَ؟» قَالُوا: كُنَّا نَصْنَعُهُ، قَالَ: «لَعَلَّكُمْ لَوْ لَمْ تَفْعَلُوا كَانَ خَيْرًا» فَتَرَكُوهُ، فَنَفَضَتْ أَوْ فَنَقَصَتْ، قَالَ فَذَكَرُوا ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ: «إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، إِذَا أَمَرْتُكُمْ بِشَيْءٍ مِنْ دِينِكُمْ فَخُذُوا بِهِ، وَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِشَيْءٍ مِنْ رَأْيِي، فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ» مسلم :(2/264)۔مشکوٰة: (1/28)
(نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے مدینہ میں لوگ کجھوروں کی پیوند کاری کیا کرتے تھے تو آپ نے فرمایا یہ کیا کرتے ہو تو انہوں نے کہا ہم اسی طرح ہی کیا کرتے ہیں تو فرمایا‘شاید تم یہ نہ کیا کرو تو اچھا ہے‘تو لوگوں نے پیوند کاری چھوڑ دی لیکن کجھوروں کی پیداوار کم ہو گئی‘راوی کہتا ہے اس(کجھوروں کے کم ہونے)کاآپ سے تذکرہ کیا گیا تو فرمایا میں انسان ہون جب میں تمہیں دین کی کسی بات کا حکم دوں تو وہ لے لیا کرو۔اور جب اپنی راے سے کچھ کہوں تو پھر میں انسان ہوں(میری رائے خطاء بھی ہو سکتی ہے)۔
دوسری حدیث: عمرۃ کہتی ہیں عائشہ رضی اللہ عنہا کو کہا گیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر آ کر کیا کرتے تھے:
«كَانَ بَشَرًا مِنَ الْبَشَرِ يَفْلِي ثَوْبَهُ، وَيَحْلُبُ شَاتَهُ، وَيَخْدُمُ نَفْسَهُ»
(وہ انسانوں میں سے ایک انسان تھے کپڑوں میں جوویں تلاش کرتے‘اپنی بکری دوہتے‘اور اپنے کام اپنے ہاتھوں سے کرتے تھے)۔شمائل ترمذی(23)‘مشکوٰۃ :(2/520)
تیسری حدیث:ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز پانچ رکعتیں پڑھائیں‘آپ سے کہا گیا کہ کیا نماز بڑھ گئی ہے تو فرمایا:کیسے بڑھ گئی‘انہوں نے کہا آپ نے پانچ رکعتیں پڑھائیں تو سلام پھیرنے کے بعدآپ دو سجدے (سہو کے ) کئے اور ایک روایت میں ہے آپ نے فرمایا تمہارے جیسا انسان ہوں میں بھی بھولتا ہوں جسیے تم بھول جاتے ہو تو جب میں بھول جاؤں تو مجھے یاد کرا دیا کرو۔جب تم میں سے کوئی اپنی نماز میں شک کرے تو صحیح تلاش کرنے کے بعد اپنی(باقی) نماز پوری کرے پھر سلام پھیرنے کے بعد دو سجدے (سہوکے ) کرے۔ متفق علیہ‘مشکوٰۃ :(1/929۔
چوتھی حدیث: عبد اللہ بن عمرو کہتے ہیں میں رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ سنتا یاد کرنے کے ارادے سب کچھ لکھ لیا کرتا تھا۔تو قریش نے مجھے روکا اور کہا کہ کیا تو جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنتا ہے سب لکھ لیتا ہے۔وہ تو انسان ہیں کبھی غصے کی حالت میں ہوتے ہیں کبھی رضا کی حالت میں ہوتے ہیں تو میں نے لکھنا چھوڑ دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا‘تو آپ نے اپنے منہ مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایالکھ‘ قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس منہ سے سوائے سچ کے اور کچھ نہیں نکلتا‘ابو داؤد:(2/152)- تفسیر ابن کثیر(4/237)-
علامہ آلوسی اپنی تفسیر: (4/113)میں اس آیت:
﴿لَقَد مَنَّ اللَّـهُ عَلَى المُؤمِنينَ إِذ بَعَثَ فيهِم رَسولًا مِن أَنفُسِهِم ...١٦٤﴾...سورة آل عمران
(بے شک مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ ان میں سے ایک رسول ان میں بھیجا)
کے تحت ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’شیخ ولی الدین عراقیرحمہ اللہ تعالی سے پوچھا گیا‘کیا یہ جاننا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انسان ہیں اور عرب ہیں‘‘ایمان کی صحت کے لیے شرط ہے یا فرض کفایہ میں سے ہے؟۔
تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ ایمان کے صحیح ہونے کے لیے شرط ہے پھر کہا کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ساری مخلوق کے لیے رسول ہونے کو تو مانتا ہون لیکن یہ نہیں جانتا کہ آپ انسان ہیں یا فرشتوں جنوں میں سے ہیں نہ ہی یہ جانتا ہوں کہ وہ عرب ہیں یا عجم ‘تو اس کے کافر ہونے میں کوئی شک نہیں۔کیونکہ وہ قرآن کی تکذیب کر رہا ہے اور جو بات قرآن اور اسلام میں پکی آ رہی ہے اور ہو خاص و عام کو بدیہی طو ر پر معلوم ہو چکی ہے اس کا انکار کر رہا ہے۔
مجھے اس مسئلے میں کوئی اختلاف معلوم نہیں‘اگر یہ بات پوشیدہ اور غیر معروف ہوتی تو اس کا سکھانا ضروری تھا۔اس کے بعد کوئی انکار کرتا تو ہم اس کے کفر ہونے کا حکم لگاتے۔الخ- تمام مسلمان انبیاء کے افضل البشر ہونے پر متفق ہیں۔
اور احمد رضا خان بریلوی کے علاوہ کسی نے خلاف نہیں کیا‘وہ افرنگ کے جاسوس اور بے وقوف تھے جو مسلمانوں کے عقائد خراب کرنا چاہتے تھے۔ اعتباری اور عقلی دلائل ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر تمام انبیاء کے بشر ہونے پر بھی بہت ہیں ‘چند ایک درج ذیل ہیں۔نور کی نہ نسل ہے اور نہ ہی ان میں نکاح کا سلسلہ اور رسولوں نے تو نکاح بھی کیے اور ان کی اولاد بھی تھی۔
اور اس طرح آدم علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کے علاوہ تمام رسول ماں اور باپ سے پیدا ہوئے عیسیٰ علیہ السلام بغیر باپ کے ماں سے پیدا ہوئے اور تمام انبیاء کھانا کھاتے تھے اور کھاتا پیتا ہے اسے بول وبراز کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ چیزیں انسانوں میں ہوتی ہیں‘نورانی اجسام مسں نہیں ہوتیں۔
بفرض محال اگر وہ انسان نہ ہوتے تو ان کی فضیلت نہ ہوتی ۔کیونکہ شہوت کے باوجود اگو کو ئی اپنے نفس کو قبائح سے روکے وہ افضل ہے اس سے جس میں شہوت ہو نہ خواہش۔انبیاء علیہ السلام شہوانی جذبات و افر رکھنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنے نفسوں کو قابو میں رکھتے تھے۔اس لیے وہ درجے میں ملائک سے افضل تھے جو نور سے پیداا کیے گئے ہیں‘اگر انبیاء فرضاً غیر بشر ہوتے اور بشر کی صورت اختیار کر کے آئے ہوئے تو سب سے پہلے ان پر یہ واجب تھا کہ وہ انسانوں کو بتاتے تاکہ وہ یہ عقیدہ رکھتے کہ وہ انسان نہیں اور کوئی ان پر انسان ہونے کا گمان نہ کرے۔لیکن کسی بھی نص سے اور نہ ہی اہل اسلام میں سے کسی کے قول سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ انسان نہیں ہیں۔تو تعجب ہے ان ظالموں پر کہ کتنے بڑے جاہل اور کافر ہیں اور ان جیسا بدیہات و ضروریات کا منکر کوئی نہیں گزرا۔اللہ تعالیٰ اپنے دین کا رکھوالا اور اپنے رسول علیہ السلام کا مدد گار ہے‘اور اللہ تعالیٰ ثقہ‘راسخ اور ربانی علماء کے ذریعے اس امت کے لیے اس کے دین کی تجدید کا ضامن ہے‘اور کجردوں اور کافروںکی تاویلوں کا ابطا ل کرتا ہے۔ وباللہ التوفیق۔
مراجعہ کریں احسن الفتاوٰی :(1/52) وہ کہتے ہیں:جس نے انبیاء کی بشریت کا انکارکیا‘ای نے غیر شعوری طور پر انکا مذاق اڑایا۔دیکھوفتاوٰی اللجنہ: (1/307) ۔(310) ۔ جو روایتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور ہونے پر دلالت کرتی ہیں وہ موضوع اور واہی ہیں۔ عنقریب اس کتاب میں اس کی تحقیق آئے گی۔ ان شاء اللہ۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب