سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(15) تلاوت قرآن پاک پر اجرت لینے کی حرمت

  • 11300
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2568

سوال

(15) تلاوت قرآن پاک پر اجرت لینے کی حرمت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

تلاوت قرآن پاک پر اجرت لینے کی حرمت پر کیا دلیل ہے ۔اخوکم فی اللہ: ابو عمر نذیر(1/2/1414ھ)۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ولاحول ولا قوة الا باللہ.

تلاوت قرآن پاک پر اجرت لینے کی حرمت پر دلائل بہت زیادہ ہیں ۔ ان میں سے درج ذیل ملاحظہ فرمائیں:

1 پھلی دلیل:اللہ کا قول :

﴿وَلا تَشتَر‌وا بِـٔايـٰتى ثَمَنًا قَليلًا  ...٤١﴾...سورة البقرة

(اور میری آیتوں کو تھوڑی قیمت پر مت  فرو خت کرو )

یہ خطاب اگرچہ یہودیوں کی طرف متوجہ ہے لیکن بمطابق مسلمہ اصول کے اعتبار خصوصیت سبب کا نہیں بلکہ لفظ کے عموم کا ہے ۔ ابو العا لیہ اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں :’’اس پر اجرت مت لو ‘‘۔ اسی طرح تفسیر ابن کثیر :(1/83) میں بھی ہے اور یہ بصیرت والوں کے لیے صریح دلیل ہے ۔

2۔دوسری دلیل :وہ روایت جو ابو محمد المخلدی نے الفوائد :(ق268/1) میں اسمعیل بن عبید اللہ سے روایت کیا ہے ،وہ کہتے ہیں کہ مجھے عبد الملک بن مروان نے کہا ،اے اسمعیل ! میرے بچے کو قرآن کی تعلیم دیں میں آپ کو عطیہ یا اجرت دوں گا اسمعیل نے کہا امر المؤمنین ! یہ کیسے ہو سکتا ہے مجھے تو ام الدرداء نے ابو الدرداء سے حدیث سنائی ہے کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،جو تعلیم قرآن پر اجرت میں کمان لے گا تواللہ اسے قیامت کے دن آگ کی کمان کا قلادہ پہنا دے گا۔امام بہقی نے (6/126) بسند جید روایت کیا ہے ،اسی طرح ابن العرکمانی نے الجوھر النقی میں اور حافظ ابن حجر نے تلخیص میں کہا ہے ۔اور عبادہ بن صامت کی حدیث  اس کی شاہد ہے جیسے احمد نے (5/315)میں ،الحاکم نے (2/41) میں ، ابو داؤد نے (2/3416) میں ، ابن ماجہ نے برقم :(2157) ،طحاوی نے (2/246) کتاب الاجارات میں ذکر کیا ہے کمافی السلسلہ (1/457)(459)، مشکوۃ :(1/258)۔

3۔تیسری دلیل:عمران بن حصین  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں :مجھ پر ایک قاری گزرا اس نے قرآن پڑھا پھر مانگنے لگا،تو انہوں نے اناللہ پڑھی پھر فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو قرآن پڑھے اور اللہ سے مانگے ،عنقریب ایسے لوگ آئیں گے جو قرآن پڑھ کر لوکوں سے مانگیں گے ۔ترمذی رقم :(3096)،احمد (4/432)(439)۔دیکھیں مشکوۃ :(1/192)، حدیث صحیح ہے جیسے السلسلہ الصحیحہ :(1/461)،رقم (257) میں ہے ۔

4۔چوتھی دلیل:ابن نصر مروزی نے قیا م اللیل ص:(74) میں ، احمد نے (3/38۔39) میں حاکم نے :(4/547) میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:

« تعلموا القرآن، وسلوا الله به الجنة، قبل أن يتعلمه قوم، يسألون به الدنيا، فإن القرآن يتعلمه ثلاثة: رجل يباهي به، ورجل يستأكل به، ورجل يقرأه لله »

(قر آن سیکھو اور اس کے بدلے اللہ سے جنت مانگو ایسے لوگوں کے آنے سے پہلے جو قرآن سیکھیں اور  اس کے بدلے دنیا مانگیں گے‘قرآن کو تین قسم کے لوگ سیکھتے ہیں‘ ایک وہ جو سیکھ کر اس کے ساتھ فخر کرتا ہے دوسرا وہ جو اس کے ذریعے کھاتا ہے تیسرا وہ جو اللہ کے لیے پڑھتا ہے)۔حدیث شواہد کی وجہ سے صحیح ہے۔اور شیخ البانی نے الصحیحہ(برقم:258) میں اسے صحیح کہا ہے۔

5۔پانچویں دلیل:جابر اور سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہما  دونوں سے روایت کرتے ہیِں:’’رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ہم پر نکلے‘ہم قرآن پڑھ رہے تھے اور ہم میں کچھ اعرابی اور کچھ عجمی تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«اقرأوا فكل حسن‘وسيجي ء أقوام يقيمونه كما يقام القدح يتعحلونه ولا يتعجلونه»

(پڑھو!سب ٹھیک ہے عنقریب ایک ایسی قوم آئے گی وہ اس قرآن کو (پڑھنے میں)اس طرح سیدھا کریں گے جیسے تیر سیدھا کیا جاتا ہے اجرت معجلہ (دنیا) چاہیں گے اور اجرت مؤجلہ (آخرت کا اجر و ثواب)کی پروا نہیں کریں گے)۔ابو ادؤد(1؍830)‘احمد:(3؍397)‘(357) ‘ابن حبان رقم:(1876)۔

6۔چھٹی دلیل: عبد الرحمان بن شبل الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے معاویہ رضی اللہ عنہ نے اسے کہا جب تو میرے خیمے میں آئے تو ٹھہر جا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تو نے جو کچھ سنا مجھے اس کی خبر دے‘تو اس نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ’’قرآن پڑھو‘اور اس پر کچھ مت کھاؤ اور نہ مال بناؤ اور سے جفا بھی نہ کرو اور نہ اس میں غلو کرو‘‘۔طحاوی: (2/246)‘كتاب الاجارات ‘ احمد :(3/428-429)- الطبراني المجمع: (4/73)

یہ احادیث اور ایسی دیگر احادیث تلاوت قرآن پر  اجرت کی حرمت پر دلالت کرتی ہیں۔علماء کرام رحمہ اللہ تعالی نے اس کی حرمت پر اجماع کیا ہے‘لیکن قرآن کی تعلیم پر اجرت لینے میں اختلاف ہے۔رد المختار: 5/35-39) میں ہے

(الأخذ واالمعطي كلاهما اثمان والمعروف كالمشروط)

(لینے والا اور دینے والا دونوں گناہ گار ہیں‘اور معروف مانند مشروط کے ہے)۔

کاندھلوی کی حیا ۃ الصحابہ میں اور حدیثیں بھی ہیں ۔ مراجعہ کریں :(3/230-231)

و صلی اللہ علی نبینا محمد وعلی آله وصحبه اجمعین

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ الدین الخالص

ج1ص69

محدث فتویٰ

تبصرے