سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(159) بیت اللہ کا طواف

  • 11297
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1627

سوال

(159) بیت اللہ کا طواف

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قا ری محمد یحٰی صا حب  اٹک  سے  دریا فت  کر تے ہیں  کہ کیا بیت اللہ کے اند ر  اور  میزا ب  رحمت  کے نیچے قبر  یں  مو جو د  ہیں  اور بیت  اللہ  کا طو اف  انہیں  قبرو ں  کی وجہ  سے  کیا جا تا ہے ؟  ہما رے ہا ں ایک بریلو ی  عا لم  دین  نے اس قسم  کا دعویٰ کیا ہے  قرآن  و حدیث  کے حو الہ  سے جواب  مطلو ب  ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بر یلو ی  حضرا ت  جو ہر سا ل  حج  بیت اللہ  کی سعادت  حا صل  کر کے  وا پس  وطن  آتے ہیں  ان سے پو چھا  جا سکتا  ہے کہ انہو ں  نے اس "نئی  دریا فت  کا مشا ہدہ  کیا ہے  یقیناً یہ دعویٰ  با طل  غلط  اور بے بنیا د  ہے اگر  چہ بعض  مؤر خین  نے بلا  تحقیق  ایسی با تو ں  کو اپنی  کتا بو ں سے نقل کیا ہے  لیکن یہ سب خو د سا ختہ ہیں مثلاً محب  الدین  الطری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں  کہ مقا م  ابرا ہیم  اور زمزم  کے درمیا ن  ننا نو ے  انبیا ئے کرا م  مد فو ن ہیں :"  نیز  حضرت اسما عیل  علیہ السلام  اپنی وا لدہ   حا ھرہ  رضی ا للہ تعالیٰ عنہا  کے ہمرا ہ  حطیم  میں  محو استرا  حت  ہیں اس کے علا وہ  حضرت ہو د  علیہ السلام  حضرت  صا لح  علیہ السلام  اور حضرت  شعیب  علیہ السلام  کی آخری  آرام گا ہ  ہیں  بھی  اسی خطہ  میں ہیں  یہ با تیں  علا مہ   ازرقی  کی  تا لیف  اخبار  مکہ  کے  حو الہ  سے نقل  کی ہیں ۔(القری فی احوا ل ام القری :ص 6)

لیکن ان " حقا ئق  کو بلا  سند  بیان  کیا گیا  ہے  جبکہ محدثین  عظا م  کے ہا ں  سند  صحیح  ہو نا  ہی  کسی  با ت  کے  صحیح ہو نے کی دلیل ہے   بلا سند ہو نے کی وجہ سے  محدثین  نے  ایسی بو تو ں  کو اپنی  کتب  میں  جگہ  نہیں  دی  ہے  علا مہ سیو طی رحمۃ اللہ علیہ  نے الکنیٰ للحاکم کے حوا لہ  سے  بر وا یت  عا ئشہ صدیقہ رضی ا للہ تعالیٰ عنہا  ایک حد یث با یں  الفا ظ نقل  کی ہے :  ان قبر  اسما عیل  فی الحجر (الجا مع الصغیر)

حضرت اسما عیل  علیہ السلام کی قبر  حطیم میں ہے ۔ لیکن مصنف  نے خو د   ہی  اس حدیث کے ضعیف  ہو نے  کی صرا حت  کر دی ہے  پھر  محد ث عصر  علا مہ البا نی رحمۃ اللہ علیہ  نے بھی  اسے ضعیف  قرار دیا ہے ۔(ضعیف الجا مع  الصغیر  :حدیث نمبر 1905)

اگر اسے  صحیح  بھی  ما ن لیا جا ئے تو بھی اس مو قف کی دلیل نہیں  بن سکتی  کیو ں  کہ  بر یلو ی  عا لم  دین  نے بیا ن  کیا ہے  کیو ں  کہ اگر  قبر  کا وجو د  ختم  ہو جا ئے  تو اس  کے احکا م  وہ نہیں  ہیں جو ظا ہر قبر کے ہو تے ہیں  خو د رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے سب  سے پہلے  جس جگہ  مسجد کی  بنیا د رکھی  تھی  اس کے ایک حصہ  میں مشر کین  کی قبر  یں تھیں  انہیں  اکھا ڑ  کر پھینک  دیا گیا  اور جگہ صاف  کر کے  وہا ں  مسجد  نبو ی   صلی اللہ علیہ وسلم   کی  بنیا د رکھی گئی ۔(صحیح بخا ری)

اب یہ نہیں کہا جا سکتا  کہ مسجد نبو ی قبر ستا ن میں بنا ئی گئی  کیو ں  کہ قبرو ں  کو نیست  ونا  بو د  کر دیا  گیا تھا  اس طرح  اگر   مسجد   حرا م  یا حطیم  میں قبر یں  تھیں  تو وہ  حو ادث  زما نہ  سے خو د بخو د  ختم  ہو گئی ہیں ملا علی قا دری کہتے ہیں :"کہ حضرت اسما عیل   علیہ السلام  کی قبر (اگر بتھی ) تو وہ ختم  ہو چکی  ہے لہذا  اس سے  مسجد  میں قبر  کے جو از  پر استدلا ل  صحیح  نہیں ہے ۔(مر قا ۃ )

سوال  میں ایک  بے بنیا دی  سی با ت  کا ذکر  ہے کہ بیت اللہ  اکا طوا ف   انہیں  قبروں  کی وجہ  سے ہو تا ہے  اصل با ت  یہ ہے  کہ  قبر کے  پجا ر یو ں  میں قبر  پر ستی  کے جر ائم  اس قد ر  سرا یت  کر چکے  ہیں کہ  اب انہیں ہر جگہ یہی بو آتی ہے  اس سے بڑھ کر اور شر ک کیا ہو سکتا ہے کہ اللہ تعا لیٰ  نے اپنی عبا دت  کےلیے  اس گھر  (بیت اللہ ) کو تعمیر  کر وا یا  اور اس کا طواف  کر نے  کو بھی  اپنی عبا د ت  قرار دیا تو  پھر طوا ف  جیسی اہم عبا دت  میں کسی کی شراکت  کیو نکر  گوار  ہو سکتی ہے   پھر یہ گھر مذعو مہ قبرو ں  کے معر ض  و جو د  میں آنے  سے پہلے  مو جو د  تھا  اور اس کا  طوا ف  کیا جا تا تھا  یقیناً یہ بہت بڑا جھو ٹ  ہے جو اللہ تعا لیٰ  کے ذمہ  لگایا  جا تا ہے  اللہ تعا لیٰ  ہمیں  اس قسم  کے  شر ک  اکبر  سے محفو ظ  رکھے  اور بے بنیا د  بو تو ں  نیز  بے  اصل  کا مو ں  سے دور رکھے  ۔آمین ،(واللہ اعلم )

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:190

تبصرے