السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
گوجرا نو ا لہ سے محمد فا رو ق نا گی خریداری نمبر3742لکھتے ہیں کہ کیا اپنے کٹھن معا شی حا لا ت کے پیش نظر موت مانگی جاسکتی ہے ؟ وہ کیا چیزیں ہے جن کا مر نے کے بعد ثو اب پہنچتا رہتا ہے ؟ کتا ب و سنت کی رو شنی میں ان کا جواب دیں ۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
دنیا میں کیسے بھی کٹھن حالات ہوں کسی بھی صورت میں مو ت کی آرزو نہیں کر نا چا ہیے ، حدیث میں ہے کہ ایک دفعہ حضرت عبا س رضی اللہ عنہ نے بحا لت مرض مو ت کی تمنا کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :"اے چچا جان ! موت کی تمنا مت کیجیے کیو نکہ اگر آپ نیک ہیں تو آپ بقیہ زند گی میں مز ید نیکیا ں حا صل کر یں گے، یہ آپ کے لیے بہتر ہے اور آپ اگر گنا ہ گا ر ہیں تو اپنے گنا ہوں سے تو بہ کر سکتے ہیں توآپ کےلیے بہتر ہے، لہذا آپ کسی بھی صورت میں موت کی تمنا نہ کریں۔(مسند امام احمد :ج2ص339)
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :"تم میں سے کو ئی بھی اپنی کسی مصیبت کے پیش نظر مو ت کی تمنا نہ کر ے اگر اس کے بغیر چا رہ نہ ہو تو اس طرح کہہ لے اے اللہ ! مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک میر ے لیے زند گی بہتر ہے اور اس وقت مجھے فوت کر لینا جب میر ے لیے مر نا بہتر ہو ۔(صحیح بخاری:الدعوات2351)
مر نے کے بعد میت کو مندرجہ ذیل چیز وں کا ثواب پہنچتا رہتا ہے۔
اگر کوئی اس کے حق میں دعا کرتا ہے تو میت اس سے بہرہ ور ہو تی ہے بشرطیکہ دعا میں قبولیت کی شرائط مو جود ہوں، حدیث میں ہے کہ اگر کوئی بھی مسلما ن اپنے بھا ئی کے لیے غا ئبا نہ دعا کر تا ہے تو وہ ضرور قبول ہو تی ہے ،اللہ کی طرف سے ایک فرشتہ تعینا ت کر دیا جا تا ہے جب وہ کسی کے لیے دعا ئے خیر کر تا ہے تو فر شتہ اس پر آمین کہتا ہے اور اسے اللہ کے ہا ں اس کے مثل اجر ملنے کی دعا کر تا ہے۔(مسند امام احمد :ج6ص452)
میت کی نذر پوری کر نا :میت نے اپنی زندگی میں کو ئی نذر ما نی تھی لیکن اسے پو راکیے بغیر مو ت آگئی تو لواحقین کو چاہیے کہ اسے پورا کر یں، وہ نذر خوا ہ روزے کی ہو یا حج یا نماز ادا کر نے کی، چنانچہ روز ے کے متعلق صحیح بخا ری 1952،حج کے متعلق صحیح بخا ری :1852،اور نماز کے متعلق صحیح بخا ری تعلیقاً :با ب من مات وعلیہ نذر ،مطلق نذر کے متعلق بھی حدیث میں آیا ہے ۔(صحیح بخا ری :الایمان والنذور6698)
میت کی طرف سے قرض کی ادائیگی :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو تا کید کی تھی کہ وہ اپنے فوت شدہ بھا ئی کا قرض ادا کر ے ، کیو نکہ وہ عد م ادا ئیگی کی وجہ سے اللہ کے ہا ں محبو س ہے ۔(مسند امام احمد :ج4ص136)
نیک اولاد جو بھی اچھے کا م کر ے گی والدین کو وفا ت کے بعد اس کا فا ئدہ پہنچتا رہتا ہے کیو نکہ ارشا د با ری تعا لیٰ ہے: کہ انسا ن کے لیے وہ کچھ ہے جس کی اس نے کو شش کی ۔(53/النجم:39)اور اولا د بھی انسا ن کی کو شش اور کما ئی میں سے ہے جیسا کہ حدیث میں ہے ۔(دارمی:ج 2ص247)
صدقہ جا ریہ اوربا قیا ت صالحا ت :حدیث میں ہے کہ جب انسا ن فوت ہو جا تا ہے تو تین اعما ل کے علاوہ اس کے تمام اعما ل منقطع ہو جاتے ہیں ، یعنی صدقہ جاریہ ، ایسا علم جس سے لو گ فا ئدہ اٹھا تے ہو ں اور نیک اولا د جو اس کے لیے دعا کر تی رہے ۔(صحیح مسلم :الوصیۃ1631)
اس سلسلہ میں ایک جا مع حد یث بھی ہے جسے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیا ن کر تے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :" انسا ن کی مو ت کے بعد جو حسنا ت اور اعما ل جا ری رہتے ہیں وہ یہ ہیں:
وہ علم جس کی اس نے لو گو ں کو تعلیم دی اور اس کی خو ب نشر و اشا عت کی۔
نیک اولا د جو اپنے پیچھے چھو ڑ گیا ۔
کسی کو قرآن مجید بطو ر عطیہ دیا ۔
مسجد بنا کر وقف کر دی۔
محتاج اور ضرورت مند کو گھر بنا کر دیا ۔
کسی غریب کے لیے پا نی کا بندوبست کر دیا۔
وہ صدقہ جسے اپنی زندگی اور صحت میں نکالا اس کا ثو اب بھی مرنے کے بعد بد ستو ر پہنچتا رہے گا ۔(ابن ماجہ۔ المقدمہ 242)
درج با لا وضا حت کے علا وہ کچھ چیز یں لو گو ں نے خو د ایجا د کر رکھی ہیں اور ایصا ل ثوا ب کے لیے انہیں عمل میں لا یا جا تا ہے لیکن وقت اور مال کے ضیا ع کے علا وہ کچھ ہاتھ نہیں آتا ، مثلاً قل خوا نی ، سا تو ا ں ، چالیسوا ں اور بر سی وغیر ہ پر قرآن خوانی اور کھا نے وغیرہ کا بندوبست ہو تا ہے، اس کا میت کو کچھ فا ئدہ نہیں پہنچتا کیو نکہ اس کا کتا ب و سنت میں کو ئی ثبو ت نہیں ہے ۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب