سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(140) مجبوری کی وجہ سے قبر دوسری جگہ منتقل کرنا

  • 11278
  • تاریخ اشاعت : 2024-11-11
  • مشاہدات : 2830

سوال

(140) مجبوری کی وجہ سے قبر دوسری جگہ منتقل کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 پینسر ہ ضلع فیصل آبا د سے انعا م اللہ سوال کرتے ہیں کہ  ہمارے ایک بز رگ کی قبر کے نز دیک بوہڑ کا در خت ہے اور ا س کے سا تھ ہی پا نی کا نا لہ ہے جو ہمیشہ جا ری رہتا ہے، اس پا نی اور درخت کی جڑو ں کی وجہ سے قبر خرا ب ہو چکی ہے، ہم اس قبر کو کسی دوسر ی جگہ منتقل کر نا چاہتے ہیں، کیا شر یعت کی روسے ہمیں ایسا کر نے کی اجا زت ہے ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 وا ضح رہے کہ میت کو قبر میں دفن کر نے کے بعد کسی ہنگا می ضرورت کے پیش نظر قبر سے نکا لا جا سکتا ہے لیکن اس اقدام کے لئے ضروری ہے کہ اس سے کو ئی غر ض فا سد یا دنیوی مفا د وابستہ نہ ہو، چنا نچہ امام بخا ری رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی صحیح میں ایک عنو ا ن با یں الفا ظ قا ئم کیا ہے:’’ کیا میت کو قبر یا لحد سے کسی غر ض کی بنا پر نکا لا جا سکتا ہے ؟‘‘

انہو ں نے سوالیہ اندا ز میں عنوا ن قا ئم کیا اور اپنی طر ف سے کو ئی جوا ب نہیں دیا ،البتہ اس کے تحت جو احا دیث پیش کی ہیں ان سے معلو م ہو تا ہے کہ ان کا رجحان اثبا ت کی طرف ہے ،انہو ں نے اس عنو ان کے تحت متعدد احادیث بیا ن کی ہیں جیسا کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے رئیس المنا فقین عبد اللہ بن ابی کو قبر سے نکا لا اور اس کے بیٹے کی دل جو ئی کے لئے اس کے منہ میں اپنا لعا ب مبا رک ڈا لا اور اسے اپنی قمیض بھی پہنا ئی، پھر دو با رہ اسے دفن کرد یا گیا، اسی طرح حضرت جا بر  رضی اللہ عنہ کے وا لد محترم حضرت عبداللہ کا وا قعہ ہے کہ غز و ہ احد کے مو قع پر وہ شہید ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کے سفر و حضر کے دوست حضرت عمر و بن جمو ح  رضی اللہ عنہ کے ساتھ انہیں ایک ہی قبر میں دفن کر دیا۔ حضرت جا بر رضی اللہ عنہ بیا ن کر تے ہیں کہ مجھے یہ بات کھٹکتی رہتی ، چنانچہ میں نے اس خلش کو دو ر  کر نے کےلئے اپنے وا لد کو قبر سے نکا لا اور انہیں دوسری جگہ دفن کر دیا ۔

مؤطا امام ما لک میں ہے کہ حضرت امیر معاویہ  رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں مقا م احد سے ایک چشمہ نکا لا گیا ،اس کے پانی کی وجہ سے حضرت عمر و بن جمو ح اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کی قبرو ں کو نقصان پہنچا تو چھیا لیس سا ل بعد دوبا رہ نکال کر کسی دوسری محفو ظ جگہ دفن کیا گیا ۔

ان احا دیث سے معلو م ہوتا ہے کہ میت کو کسی خاص حقیقی ضرورت کے پیش نظر قبر سے نکالا جا سکتا ہے اور کسی دوسری جگہ دفن کیا جا سکتا ہے لیکن اس با ت کا خا ص خیا ل رکھا جا ئے کہ کو ئی غر ض فاسد اس سے وابستہ نہ ہو، جیسا کہ بے رو نق جگہ پر اس کا مزا ر بنانا مقصود ہو یا اسے پختہ بنانا پیش نظر ہو، اگر ایسی با ت ہے تو قبر اکھا ڑنا شرعاً جا ئز نہیں ہے۔ صورت مسئولہ میں انہی شرا ئط کے سا تھ  میت کو قبر سے نکال کر دوسری جگہ دفن کیا جا سکتا ہے اور ایسا کر نے میں شرعاً کو ئی قبا حت نہیں ہے ۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:169

تبصرے