سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(132) مردہ پیدا ہونے والے بچے کا جنازہ

  • 11270
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1434

سوال

(132) مردہ پیدا ہونے والے بچے کا جنازہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میاں چنوں سے محمد صا لح سوال کر تے ہیں کہ ما ں کے پیٹ سے جو مردہ بچہ پیدا ہو، اس کا جنا زہ پڑھا جا سکتا ہے یا نہیں ؟ قرآن و حدیث کی رو شنی میں جواب دیں ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشر ط صحت سوال واضح ہو کہ مر نے وا لے مسلما ن کا جنا زہ ادا کر نا فر ض کفا یہ ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ چند ایک مسلما نو ں کی شرکت سے یہ فرض ادا ہو جا تا ہے، تما م لوگو ں کی شمو لیت ضرو ری نہیں ہے، اگر کو ئی بھی جنا زہ نہ پڑ ھے تو جر م میں سب شر یک ہو تے ہیں لیکن نا بالغ بچے اور شہید کے متعلق یہ فرض کفا یہ بھی نہیں ہے کیو نکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لخت جگر ابرا ہیم رضی اللہ عنہ جو تقر یباً ڈیڑ ھ سا ل زند ہ رہے ان کا جنا زہ نہیں پڑھا تھا ۔(مسند امام احمد )

اسی طرح شہدا ئے احد کا بھی آپ نے جنا زہ نہیں پڑ ھا تھا جیسا کہ متعدد  روا یا ت سے پتہ چلتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بچے اور شہید کا جنا زہ جا ئز نہیں کیو نکہ احا دیث سے معلو م ہو تا ہے کہ خو د رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے بعض بچو ں اور سید الشہداءحضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا جنا زہ پڑھا تھا۔ بچے کے متعلق یہ بھی روایا ت میں آیا ہے کہ اگر وہ ما ں کے پیٹ سے مردہ پیدا ہو تو بھی اس کا جنازہ پڑھنا جا ئز ہے۔ حدیث میں ہے کہ مردہ پیدا ہو نے وا لے بچے کا جنا زہ پڑھا جا ئے اور اس کے والدین کے لئے مغفرت و رحمت کی دعا کی جا ئے ۔(سنن ابی داؤد،صحیح ابن حبا ن )

محدث العصر علا مہ البا نی  رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتا ب "احکا م الجنائز " میں اس کا تفصیلی ذکر کیا ہے، اس سلسلہ میں اس کتا ب کا مطالعہ مفید رہے گا،نیز اس قسم کے بچے کا جنا زہ اس صورت میں جا ئز ہو گا جب شکم مادر میں اس کے اندر روح پڑ چکی ہو اور مدت حمل سے پہلے ہی اس کی ولا دت ہوجائے، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کم از کم چا ر ما ہ کا ہو، اگر ماں کے پیٹ میں چا ر ما ہ نہیں گزرے تو اس قسم کے بچے کا نماز جنا زہ مشروع نہیں ہے کیو نکہ اس صورت میں مردہ کہا جائے گا اور جن روایا ت میں بچے کی آواز کے بعد جنا زہ پڑھنے کا ذکر ہے وہ صحیح نہیں ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:164

تبصرے