سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(131) دشمن کے ہاتھوں قید ہونے کے بجائے خود کو بم مارنا

  • 11269
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1099

سوال

(131) دشمن کے ہاتھوں قید ہونے کے بجائے خود کو بم مارنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کوٹ سو ہندا ضلع شیخو پورہ سے سعید سا جد لکھتے ہیں کہ دشمن کے ہا تھو ں قید ہونے کے بجا ئے خود کو بم وغیرہ سے ختم کر لینا شر عاً کیا حیثیت رکھتا ہے ؟ کیا ایسی مو ت خود کشی تو نہیں  جو شر یعت میں حرا م ہے، قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کا حل در کا ر ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بلا شبہ انسا ن کا خود اپنے آپ کو ما ر ڈا لنا بہت بڑا جرم اور سنگین حر کت ہے اور ایسی گھٹیا حر کت وہی شخص کر تا ہے جو ایما ن اور عقل و خر د کی  دو لت سے تہی دست ہو تا ہے، اس اقدا م خودکشی  سے یہ بھی ثا بت ہو تا ہے کہ اس شخص کی نظر میں زند گی اور اس کی نعمتوں کی کو ئی قدر و قیمت نہیں، وہ اس فعل بد کے جو از کے لئے خواہ کتنے ہی حیلے کیو ں نہ تلا ش کر ے  اس کا یہ اقدا م  کسی صورت میں درست ثا بت نہیں ہو سکتا اور نہ وہ قیا مت کے دن خود کو قدرت کے انتقام اور عذا ب الٰہی سے بچا سکتا ہے۔ خودکشی  کے متعلق  متعدد احا د یث وا رد ہیں جن میں سخت وعید سنا ئی گئی ہے۔ فر ما ن نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم  ہے : جو شخص پہا ڑ سے گر کر خو دکشی کر ے وہ دوزخ کی آگ میں اسی طرح گر تا رہے گا اور جس نے زہر پی کر اپنے آپ کو ختم کیا ، وہ جہنم کی آگ میں بھی زہر پیتا رہے گا اور جس نے لو ہے کے کسی ہتھیا ر سے خود کو قتل کیا وہ آتش جہنم  میں بھی اسی ہتھیا ر کو اپنے پیٹ میں گھو نپتا رہے گا اور کبھی اس کو نجا ت نہیں ملے گی۔ (صحیح بخاری و مسلم )

"جس شخص نے کسی چیز سے خودکشی  کی، قیا مت کے دن اس سے اس کو عذاب دیا جا ئے گا ۔(بخا ری )

ایک حدیث قد سی میں ارشا د با ری تعا لیٰ ہے : ’’ میر ے بندے نے خود کشی کے لئے جلد ی کی، لہذا میں نے اس پر جنت حرا م کر دی ۔‘‘   (صحیح بخا ری )

صورت مسئولہ میں اگر خودکشی کسی ذا تی  غر ض کے لئے ہے تو یقیناً اسی و عید کا حق دا ر ہے جس کا اوپر حوالہ دیا گیا ہے جیسا کہ اکثر و بیشتر ایسے وا قعا ت اخبارات میں آتے رہتے ہیں ،اگر اقدام خو دکشی اسلام یا مسلمانوں کے اجتما عی مفا د کے لئے ہے تو امید ہے کہ اللہ کے ہا ں مؤاخذہ نہیں ہو گا جیسا کہ سورۃ بروج میں اصحا ب الا خد ود کا وا قعہ بیان ہوا ہے کہ اللہ پر ایما ن لا نے وا لے ایک لڑکے  نے اپنی قو م سے کہا تھا کہ اگر تم مجھے قتل کر نا چا ہتے ہو تو کسی میدان میں عوا م الناس کے رو برو:بسم الله برب الغلام پڑھ کر تیر مارا جا ئے، اس طرح تم مجھے ختم کر نے میں کا میا ب ہو سکتے ہو ۔(فتح البا ری : 8/ 792)

اس طرح وہ لڑ کا قتل تو ہو گیا لیکن اس کے نتیجہ میں تما م لو گ جو اس منظر کو دیکھ رہے تھے، مسلما ن ہو گئے، اس نے احیاء اسلام کے لئے خو د کو اللہ کے حوالے کر دیا۔ مختصر اً یہ ہے کہ اگر کو ئی جسما نی ذہنی اور اخلا قی  تکلیف کی تا ب نہ لا تے ہو ئے خودکشی  کر تا ہے تو وہ عظیم جر م کا ارتکاب کر تا ہے، مثلاً:

(1)کسی زخم کی شدت کو بر داشت نہ کر نے کی وجہ سے خو د کو ما ر لینا ۔

(2)گھر یلو پر یشا نی کی وجہ سے خو د کشی کر لینا ۔

(3)اپنی عز ت نا مو س کو بچا نے کے لئے خو د کو زہر پی کر ختم کر لینا وغیرہ۔

اگر احیا ئے اسلام یا اجتما عی ملی مفاد کے لئے اپنے آپ کو ختم کر تا ہے یا کسی کو کہتا ہے کہ اگر میں دشمن کے گھیر ے میں آجا ؤں تو مجھے قتل کر دینا کہ دشمن اسلام اہل اسلام کے متعلق راز افشا ں کرا نے میں کامیاب نہ ہو سکے تو یہ اقدا م اللہ کے ہاں اجر و ثوا ب کا با عث ہو گا ۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:163

تبصرے