سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(126) امام کے پیچھے قراءات کرنا

  • 11261
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1278

سوال

(126) امام کے پیچھے قراءات کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہری پور سے عبد القدوس لکھتے ہیں کہ  اگر قرآن مجید سننا فرض ہے تو امام کے پیچھے سورہ فاتحہ کیوں پڑھی جاتی ہے؟نیز یہ بتائیں کہ اگر صبح کی جماعت کھڑی ہوتو کیا صبح کی سنتیں ایک طرف کھڑے ہوکر پڑھی جاسکتی ہیں۔جہاں امام کی قراءت نہ سنی جاتی ہو؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جس ذات اقدس نے قرآن مجید خاموشی سے سننا فرض قرار دیا ہے، اسی ذات باری تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے یہ حکم دیا ہے کہ سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔(صحیح بخاری)دوران جماعت جب امام باآواز بلند قراءت کررہا ہو تب بھی یہی حکم ہے جیسا کہ ایک دوسری حدیث میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' جب میں اونچی آواز سے قراءت کروں تو(میرے پیچھے) سورہ فاتحہ کے علاوہ اور کچھ نہ پڑھا کرو۔''(دارقطنی :ج 1 ص 319)

جو حضرات امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے سے منع کرتے ہیں آخر وہ بھی امام کی قراءت کے دوران کچھ پڑھنے کی گنجائش نکال لیتے ہیں۔جیسا کہ بوقت قراءت جماعت میں شامل ہونے والے کے لئے تکبیر تحریمہ اوردعائے استفتاح یعنی سبحانك اللهم وبحمدك پڑھنے کا جواز ان کے ہاں بھی مسلم ہے۔ اس بنا پر امام کے پیچھے سورۃفاتحہ پڑھنا اس ''انصات'' کے خلاف نہیں ہےجس کا اللہ تبارک وتعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ اور نہ ہی حدیث اور قرآن میں کوئی قضا ہے۔لہذا ہمیں قرآن کا سہارا لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اختلاف نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ایسا کرنا ایمان کے منافی ہے۔باقی رہا مسئلہ کہ جب صبح کی نماز کھڑی ہوتو ایک طرف کھڑے ہوکر صبح کی سنتیں ادا کرنا تو یہ بھی حدیث کے خلا ف ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جب فرض نماز کے لئے اقامت ہوجائے تو اس وقت فرض نماز کے علاوہ اور کوئی نماز نہیں ہوتی۔(صحیح مسلم)

اس حدیث سے ثابت ہو ا کہ جب فرض نماز کی ادائیگی کے لئے تکبیر کہہ دی جائے تو اس وقت سنت ادا کرنا جائز نہیں ہے۔اس حکم میں صبح کی سنتیں بھی شامل ہیں۔ اس لئے مسجد کے کونے سے یا ستون کے پیچھے یا مسجد کے باہردروازے کے پاس کسی جگہ پر انہیں ادا کرنا درست نہیں بلکہ جماعت میں شامل ہوکر فراغت کے بعد فوت شدہ سنتوں کو ادا کیا جائے۔اس کا جواز احادیث سے ملتا ہے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ دوران جماعت سنتیں پڑھنے والوں کو سزا دیا کرتے تھے جیسا کہ محدثین کرام نے وضاحت کی ہے۔(معالم السنن :ج8 ،ص 77)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:157

تبصرے