السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
فیصل آباد سے قاری حبیب اللہ بسمل خریداری نمبر 1483 لکھتے ہیں کہ اگر مسافر آدمی کسی مقیم امام کی اقتدا میں نماز ادا کرے اور اتفاق سے آخری دو رکعات میں شامل ہو تو کیا اسے امام کے ساتھ سلام پھیر دینا چاہیے یا اسے چار رکعات پڑھنا ضروری ہیں۔وضاحت فرمائیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مسافر انسان پر دو رکعت ادا کرنا ہی فرض ہے، اس لئے عقل کا تقاضا تو یہی ہے کہ مسافر اگر مقیم کی اقتدا میں تیسری یاچوتھی رکعت میں شامل ہو تو اسے دو رکعت ادا کرنے کے بعد سلام پھیر دینا چاہیے۔ لیکن شریعت کے بعض نصوص اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے آثار ایسے ملتے ہیں کہ اس معاملہ میں عقل کے فیصلے کے مطابق عمل نہیں کیا جاسکتا، چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے دریافت کیا گیا کہ مسافر جب اکیلا نماز پڑھتا ہے تو دو رکعات اد ا کرتا ہے۔اور جب مقیم کی اقتدا میں پڑھتا ہے تو چار رکعتیں پڑھتا ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟آپ نے فرمایا:''یہی ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔''(مسنداامام احمد :ج 2 ص 503)
امام ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تالیف میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے۔جب مقیم امام کے ساتھ نماز میں شامل ہو تو کیا کرے؟اس کےتحت انھوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ کے چند ایسے آثار نقل فرمائے ہیں کہ مسافر جب کسی مقیم شخص کی اقتدا میں نماز پڑھے تو اسے مکمل نماز پڑھنی چاہیے۔ان آثار کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
1۔حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:'' کہ اگر مسافر مقیم امام کے ساتھ ایک رکعت میں شامل ہو تو امام کے ساتھ باجماعت نماز اداکرنے کے بعد جو نماز رہ گئی ہو اسے ادا کرے۔''
2۔حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں:'' کہ جب مسافر مقیم امام کے پیچھے نماز ادا کرے تو اسے پوری نماز پڑھنی چاہیے۔''
3۔حضرت مکحول سے روایت ہے:'' کہ اگر مسافر کسی مقیم امام کے پیچھے نماز پڑھے اور اسے ایک یا دو رکعت باجماعت مل جائیں تو امام کے ساتھ نماز اداکرکے اس کے بعد بقیہ نماز پوری کرے۔''
4۔حضرت جابر بن زید رضی اللہ عنہ سے سفر کی نماز کے متعلق سوا ل ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' کہ اگر تم اکیلے نماز پڑھو تو دو رکعت اور باجماعت ادا کرو تو مقیم امام کے اقتدا کے پیش نظر پوری نماز پڑھو۔''حضرت سعید بن جبیر، ابراہیم نخعی ،قاسم اور عطاء بن ابی رباح کابھی یہ فتویٰ ہے۔(مصنف ابن ابی شیبہ:ج1ص 382)
ان آثار کے پیش نظر مسافر کو چاہیے کہ مقیم امام کی اقتدا کرتے ہوئے پوری نماز ادا کرے۔
راقم الحروف کافی عرصہ تک عقل کے تقاضے کے مطابق اگر مقیم امام کے پیچھے اتفاقاً مسافر کودو یا ایک رکعت مل جانے پر مسافر کے لئے دو رکعت ادا کرنے کا قائل اور فاعل تھا، مذکورہ حوالہ جات دستیاب ہونے پر اس موقف سے رجوع کیا۔ان آثار کی نشاندہی عزیزم محمد حماد نے کی ،جزاہ اللہ خیرا، واضح رہے کہ تحدیث نعمت کے طور پر یہ نوٹ لکھا گیا ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب