سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(107) نماز قصر کے لیے سفر کی حد

  • 11242
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 6024

سوال

(107) نماز قصر کے لیے سفر کی حد

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حاصل پور سے میر داد قریشی لکھتے ہیں کہ نماز قصر کتنے میل کے ارادہ سفر پر جائز ہے ؟کیا سفر کی کوئی حد مقرر ہے کہ کم از کم اتنے میل کا سفر ہوتو نماز قصر ادا ہوتی ہے۔نیزکتنے روز تک قیام سفر میں نماز قصر کرنا جائز ہے، کیا دوران سفر میں نماز قصر کی بجائے پوری پڑھی جاسکتی ہے، ایسا کرنا بدعت تو نہ ہوگا ،میں کچھ عرصہ سے بسلسلہ ملازمت لاہور میں مقیم ہوں ،میرا ذاتی مکان میانوالی، بھکر شہر میں بھی موجود ہے اور ذاتی زرعی زمین کسی اور جگہ ہے، اس کی نگرانی کے لئے جانا پڑتا ہے ،کیا ان تمام مقامات پر مجھے قصر پڑھنا ہو گی یا پوری نماز ادا کرنا پڑے گی؟ براہ کرام ان تمام سوالات کا جواب تفصیل سے دیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نماز قصر کے لئے مقدار سفر کے متعلق علماء ئے سلف میں خاصا اختلاف ہے، ظاہری حضرات کے نزدیک کسی قسم کی مقدار سفر معین نہیں ہے، ان کے نزدیک ہر سفر میں نماز قصر کی جاسکتی ہے، خواہ سفر کم ہو یا زیادہ ، بعض محدثین ایک دن اور ایک رات کی مسافت پر نماز قصر جائز قرار دیتے ہیں، الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق کوئی صریح قولی روایت نہیں ملتی جس سے نماز قصر کے لئے مسافت کی مقدار کو معین کیا جاسکتا ہو، البتہ حضرت انس رضی اللہ عنہ جو سفر وحضر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک خادم  خاص کی حیثیت سے رہے ہیں'انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک فعل سے استنباط کیا ہے کم از کم نومیل کی مسافت پر نماز قصر کی جاسکتی ہے، چنانچہ آپ کے شاگرد یحییٰ بن یزید نے نماز قصرکے لئے مسافت کی مقدار کے متعلق سوال کیا توحضرت انس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین میل یا تین فرسنگ کا سفر کرتے تو نماز قصر فرماتے۔(روایت میں سفر کی تعیین کے متعلق تردد ایک راوی شعبہ کو ہوا ہے)(صحیح مسلم :حدیث نمبر 691)

واضح رہے کہ روایت میں تین میل کے بجائے تین فرسنگ مراد لینا زیادہ قرین قیاس ہے کیوں کہ اس میں میل بھی آجاتے ہیں کہ ایک فرسنگ تین میل کا ہوتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مسافت اگر نو میل ہوتو اپنے شہر یا گاؤں کی حد سے نکل کر نماز قصر کی جاسکتی ہے۔بعض حضرات کا خیال ہے کہ اتنی مسافت طے کرنے کے بعد قصر کا آغاز ہونا چاہیے، روایت میں انتہائے سفر کا بیان نہیں ہے،لیکن روایت کا یہ مفہوم اس لئے درست نہیں ہے کہ سائل نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے جواز قصر کے لئے مسافت کے متعلق سوال کیاتھا اور اس کے سوال کے مطابق ہی اسے جواب دیا گیا۔اس کے بعد یہ مفروضہ قائم کرنا کہ واقعاتی طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صرف اتنی مسافت پر مشتمل سفر کرنا ثابت نہیں، اس کی حیثیت نکتہ آفرینی سے زیادہ نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم خاص حضرت انس رضی اللہ عنہ سائل کے سوال کو سمجھ کر اس کے مطابق جواب دیتے ہیں جو ہمیں تسلیم کرنا چاہیے۔

 دوران سفر کتنے روز کے قیام میں نماز قصر کی جاسکتی ہے ؟اس کے متعلق بھی ائمہ کرام سے اختلاف منقول ہے۔ اس بارے میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی صریح حکم مروی نہیں ہے ،البتہ آپ کے عمل مبارک سے جو بات سمجھ آتی ہے وہ یہ ہے کہ دوران سفر، قیام پڑاؤ یا منزل مقصود پر پہنچے اور روانگی کے دن کے علاوہ اگر تین دن اور تین رات ٹھہرنے کا ارادہ یقینی ہو تو نماز قصر ادا کرنا چاہیے، اس سے زیادہ قیام مقصود ہوتو نماز پوری پڑھنا ہوگی کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع کے موقعہ پر چار ذوالحجہ صبح کے وقت مکہ مکرمہ پہنچے ہیں اور آٹھویں ذوالحجہ صبح کی نماز ادا کرکے منیٰ کو روانہ ہوئے ہیں۔یعنی آمد اور روانگی کا دن نکال کر پانچ چھ اور سات ذوالحجہ تک تین دن مکمل قیام کیا اور یہ قیام اتفاقی نہیں بلکہ حسب پروگرام تھا اور اس دوران آپ نماز قصر پڑھتے رہے، دوسرے الفاظ میں یوں بھی کہاجاسکتاہے کہ دوران سفر اگر بیس نمازیں ادا کرنے تک قیام رکھنا ہوتو نمازقصر ادا کرنے کا ثبوت خودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ملتا ہے، اس موقف کی تائید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک اور فرمان سے بھی ہوتی ہے کہ آپ نے مہاجرین کومناسک حج ادا کرنے کے بعد صرف تین دن مکہ مکرمہ میں ٹھہرنے کی اجازت دی تھی۔حدیث کے الفاظ یہ ہیں:'' کہ حج ادا کرنے کے بعد مہاجر تین دن مکہ میں ٹھہر سکتا ہے۔''(صحیح مسلم :کتاب الحج باب جواز الاقامۃ بمکۃ للمہاجر)

اس فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ ہے کہ مہاجرین نے چونکہ اللہ کے دین کی سر بلندی کے لئے مکہ مکرمہ کوچھوڑا تھا، اس لئے مکہ فتح ہونے کے باوجود ان کی مسافر انہ حالت برقرار رہنی چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق تین دن اور تین رات کے قیام سے ایک مسافر انسان کے مقیم کے حکم میں نہیں آتا بلکہ اس قدر قیام کرنے سے ا س کی مسافرانہ حالت برقرار رہتی ہے، اس بنا پر محدثین کی اکثریت کا یہی موقف ہے کہ آمد اور روانگی کے دن کو نکال کر اگر پورے تین دن اور تین رات قیام کا پختہ ارادہ ہوتو نماز قصر پڑھی جاسکتی ہے۔ البتہ کسی جگہ پر آدمی مجبورا ً رکا ہو اور ہر وقت یہ خیال دامن گیر ہو کہ مجبوری ختم ہوتے ہی گھر واپس چلا جاؤں گا تو ایسی غیر یقینی صورت حال کے پیش نظر علماء کا اتفاق ہے کہ ایسی جگہ پر بلا تعیین مدت نماز قصر کی جاتی رہے گی۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے متعدد ایسی مثالیں کتب حدیث میں موجود ہیں کہ انہوں نے ایسے غیر یقینی حالات میں لمبی مدت تک کے لئے نمازیں قصر سے پڑھی ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول تھا کہ آپ ہمیشہ سفر میں قصر کرتے تھے۔کسی معتبر روایت میں یہ صراحت نہیں ہے کہ آپ نے کبھی سفر میں چار رکعت پڑھی ہوں،یعنی نماز پوری ادا کی ہو،حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت ابو بکر صدیق ، حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ متعدد مرتبہ سفر کیا ہے،میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ ان حضرات نے دوران سفر پوری نماز پڑھی ہو،یعنی قصر نمازیں ادا کرتے رہے ہیں۔پھر آپ نے سورہ احزاب میں سے یہ آیت تلاوت فرمائی :'' کہ تمہارے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔''(صحیح مسلم حدیث نمبر 689)

البتہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے متعلق روایات میں ہے کہ انہوں نے حج کے موقع پر منیٰ میں چار رکعت پڑھائی تھیں۔ اور محدثین کرام نے اس کی متعدد وجوہ بیان فرمائی ہیں۔اور اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی منقول ہے کہ آپ دوران سفر کبھی کبھار پوری نماز پڑھ لیتی تھیں۔ان احادیث کے پیش نظر محتاط ائمہ کرام نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ انسان کو اللہ کی دی ہوئی اس رخصت سے فائدہ اٹھانا چاہیے ۔اور اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ اس کی رخصت کو قبول کیا جائے، اس بنا پر ہمارے نزدیک یہی افضل ہے کہ دوران سفر نماز قصرپڑھی جائے، لیکن اگر کوئی رخصت سے فائدہ نہ اٹھاتے ہوئے نماز پوری اد ا کرتا ہے تو اس کا جواز ہے اور بدعت وغیرہ کے زمر ے میں نہیں آتی۔

فقہائے اسلام نے وطن کی دو اقسام لکھی ہیں:

1۔وطن اصلی :وہ مقام جہاں انسان پیدا ہوا ہے اور اپنے والدین یا اہل وعیال کے ہمراہ وہاں رہائش رکھے ہوئے ہو۔

2۔وطن اقامت :وہ مقام جہاں وہ شرعی مسافت سے زیادہ دنوں کے لئے رہائش رکھے ہوئے ہو۔

احکام کے لحاظ سے ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے، لہذا اگر کوئی انسان کاروبا ر کے لئے کسی دوسری جگہ چلا جاتا ہے اور اس کا پہلا گھر (وطن اصلی) بھی موجود ہے تو اس صورت میں جائے کاروبار یا جائے ملازمت (وطن اقامت ) اور رہائشی گھر اقامت ہی کے حکم میں ہیں۔ذاتی مکانات اگرچہ متعدد ہوں اور مختلف مقامات پر ہوں وہاں نماز پوری ادا کرنا ہوگی۔اسی طرح اپنی ذاتی زمین کی دیکھ بھال کے لئے کبھی کبھار جو سفر اختیار کرنا پڑتا ہے دوران سفر قصر اور زمین پر پہنچ کر پوری نماز پڑھنا ہوگی۔ذاتی دکانوں اور پلاٹوں کی بھی یہی حیثیت ہے۔

صورت مسئولہ میں ذاتی مکانات جہاں کہیں ہوں اور ذاتی زرعی زمین بھی جہاں کہیں ہو وہاں نمازپوری اد ا کرنا ہوگی۔کیوں کہ جب تک مکان یا ذاتی جائیداد موجود ہے، وہ اس کی اقامت گاہ ہے اور نماز کے لئے قصر کی رعایت مسافر کو ہے مقیم کو نہیں۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:138

تبصرے