السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
رحیم یار خان سے محمد ادریس خریداری نمبر 6054 کہتے ہیں کہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق حساب ہوگا۔ اگر نماز سنت کے مطابق نہ ہوئی تو کیا حساب آگے چلے گا یا وہیں ختم کردیا جائے گا۔''
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
واضح رہے کہ انسان پر دو طرح کے واجبات ادا کرنا ضروری ہے ایک حقوق اللہ اور دوسرے حقوق العباد قیامت کے دن حقوق العباد سےقتل ناحق کے بارےمیں فیصلہ کیا جائے گا۔''(صحیح بخاری:الرقاق 6533)
البتہ حقوق اللہ سے نماز کے متعلق سب سے پہلے حساب ہوگا، اس حساب کی نوعیت حدیث میں بایں الفاظ بیان ہوتی ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛'' کہ قیامت کے دن سب سے پہلے انسانی اعمال میں سے نماز کا حساب ہوگا، اگر وہ صحیح ہوئی تو اسے کامیاب وکامران قرار دیا جائے گا ۔اوراگر اس کا معاملہ خراب ہوا تو انسان خسارے میں رہے گا، اگر اس فریضہ میں کچھ کوتاہی ہوئی توسنن ونوافل سے اس کی تلافی کردی جائے گی،اسی طرح دیگر اعمال کا محاسبہ ہوگا۔''(جامع ترمذی :الصلوۃ 413)
نماز میں کمی کے متعلق شارحین نے لکھا ہے کہ وہ معیار ومقدار کے متعلق بھی ہوسکتی ہے اور فرائض وشروط کے بارے میں ایسا ہوسکتا ہے۔دونوں صورتوں میں نوافل وغیرہ سے اس کمی کو پورا کیا جائے گا۔اگر کسی انسان کے نامہ اعمال میں نماز نامی کوئی چیز برآمد ہی نہ ہوئی تو ایسے انسان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔وہ تو احادیث کی صراحت کے مطابق دائرہ اسلام سے ہی خارج ہے، اس کے علاوہ رکعات کی تعداد یا کیفیت ادا کے متعلق اگر کمی کوتاہی ہوئی تو اسے نوافل وسنن سے پورا کیاجائے گا۔جیسا کہ دیگر احادیث میں اس کی وضاحت ہے۔(نسائی :الصلوۃ 467 ،ابن ماجہ الصلوۃ 1425)
عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے چھوٹے سے چھوٹے عمل کا حساب ہوگا جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:'' ہم قیامت کے دن عدل وانصاف کا ترازو قائم کریں گے۔لہذا کسی کی کچھ بھی حق تلفی نہ ہوگی اور اگر کسی کا رائی کے دانہ کے برابر بھی عمل ہوگا تو وہ بھی سامنے لائیں گے اور حساب لینے کے لئے ہم کافی ہیں۔''(21/الانبیاء :47)
مذکورہ حدیث کے آخر میں بھی ہے'' کہ اسی طرح دیگر اعمال کا محاسبہ ہوگا،البتہ ارکان اسلام، نماز، روزہ، حج اور زکوۃ لازمی مضامین کی حیثیت سے ان کا حساب لیاجائے گا۔اگر ان میں انسان ناکام رہا تواسے ناکام ہی قرار دیا جائے گا۔''البتہ حساب وکتاب تو زندگی بھر کے اعمال کا ہوگا تاکہ برسر عام ایک نامراد انسان کی ناکامی کو واضح کیا جائے۔قرآن میں ہے:'' کہ جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہوگی وہ بھی اسے دیکھ لے گا۔''(99/الزلزال :7،8)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب