السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ضلع چکوال سے محمد حیات صاحب دریافت کرتے ہیں کہ تشہد میں کلمہ شہادت پر انگلی سے اشارہ کرنے کی کیا دلیل ہے ،نیز سجدہ سات اعضاء پر کیا جاتا ہے اس سے مراد کون کون سے اعضاء ہیں، اس کے علاوہ اہل حدیث مجریہ 24 اگست میں مضمون ''قبرآخرت کی پہلی منزل''شائع ہوا ہے ،اس میں حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی ایک طویل روایت کا ذکر ہے اس کا حوالہ مع حالت سنددرکار ہے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
تشہد میں شروع سے آخر تک انگشت شہادت اٹھا کرحرکت دیتے رہنا سنت نبوی ہے۔لیکن صرف شہادتین کے موقع پر انگلی اٹھانا اور پھر اسے رکھ دینا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے، پہلے اور دوسرے تشہد میں انگلی اٹھانے کے دو طریقے ہیں:
1۔دائیں ہاتھ کی انگلیاں بند کرلی جائیں، پھر انگوٹھے کو درمیانی انگلی کی جڑ میں رکھ کر انگشت شہادت کو قبلہ رخ کریں اور اسے مسلسل ہلاتے رہیں۔
2۔دائیں ہاتھ کی دو انگلیاں بند کرلی جائیں ،پھر انگوٹھے اور درمیانی انگلی سے حلقہ بنا کر انگشت شہادت کو متواتر حرکت دیتے رہیں۔(مسلم:ابوداؤد: نسائی : کتاب الصلاۃ)
بعض روایتوں میں انگشت شہادت کوحرکت نہ دینے کی صراحت ہے لیکن علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایسی تمام روایات شاذ یا منکر ہیں انہیں حرکت دینے والی روایات کے مقابلہ میں لانا صحیح نہیں ہے۔ تشہد میں انگلی اٹھا کر حرکت کرتے رہنا اس کا فائدہ یہ ہے کہ نماز میں یکسوئی کا باعث ہے، خیالات پراگندہ نہیں ہوتے۔حدیث میں بھی اس کا اشارہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:''تشہد میں انگلی اٹھانا شیطان کے لئے لوہے کے نیزہ سے زیادہ ضرب کاری کا باعث ہے۔''(مسند امام احمد :119/2)
٭ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہمابیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سات اعضاء پر سجدہ کرنے کا پابند کیاگیا ۔ پیشانی، دونوں ہاتھ ،دونوں گھٹنے اور دونوں پاؤں۔(صحیح بخاری:حدیث نمبر 809)
بعض روایات میں صراحت ہے کہ دونوں پاؤں کے پنجوں پر سجدہ کرنے کا مجھے حکم دیا گیا ہے۔(دارمی ۔ابن خزیمہ ) پیشانی کے ساتھ ناک کو بھی شامل کیا جائے کیوں کہ حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں اپنی ناک اور پیشانی کو اچھی طرح زمین پر ٹکاتے۔(ابو داؤد ۔ترمذی) نیز حدیث میں ہے ''کہ ا س شخص کی نماز نہیں ہوتی جس کی ناک پیشانی کی طرح زمین پر نہیں لگتی۔''(مستدرک حاکم :27/1)
واضح رہے کہ بحالت سجدہ پاؤں کی انگلیاں قبلہ رو ہوں اور قدموں کو کھڑا کرکے ان کی ایڑیاں آپس میں ملی جلی ہوں۔(صحیح ابن خزیمہ :حدیث نمبر 654)
٭ حضرت براء بن عازب کی یہ طویل روایت مسند امام احمد 288/4 اور بو داؤد کتاب السنۃ باب المسئلۃ فی القبر میں ہے ۔علامہ ہیثمی اس کی سند کے متعلق فرماتے ہیں کہ اس کے تمام راوی ''صحیح'' کے راوی ہیں۔(مجمع الزوائد :493 /5)
(ب) تشہد میں انگشت شہادت کو کب حرکت دینا چاہیے ؟
(ب) تشہد میں بیٹھتے ہی انگشت شہادت کو اٹھانا اور سلام پھیرنے تک اسے ہلاتے رہنا چاہیے، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ تشہد میں اشھد کے الفاظ کہتے ہی انگلی اٹھا لی جائے اور الا اللہ کہنے کے بعد اسے گرا دیا جائے۔علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اس انداز سے انگلی کو حرکت دینا بالکل بے بنیاد ہے، اس کی کوئی اصل نہیں ہے ،حتیٰ کہ اس کے متعلق کوئی من گھڑت روایت بھی کتب حدیث میں مروی نہیں ہے۔(صفۃ الصلاۃ : 124)
بلکہ احادیث سے جو معلوم ہوتا ہے وہ یہ کہ شروع تشہد ہی سے انگلی اٹھالی جائے اور سلام پھیرنے تک اسے حرکت دیتے رہنا چاہیے، جیسا کہ حضرت وائل بن حجر رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے۔(سنن نسائی :کتاب الصلاۃ)
حدیث کے الفاظ یہ ہیں:'' میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی کو اٹھایا ،پھر اسے حرکت دیتے رہے اور دعا کرتے رہے۔
علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کو وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:'' کہ اس حدیث میں انگلی کے متعلق مسنون طریقہ بیان ہوا ہےکہ اس کا اشارہ اور حرکت سلام تک جاری رہے کیوں کہ دعا سلام سے متصل ہے۔''(صفۃ الصلوۃ :158)
جن روایات میں انگشت شہادت کو حرکت نہ دینے کا ذکر ہے وہ صحیح نہیں ہیں۔ اس تحریک کا فائدہ یہ ہے کہ نمازی انسان خارجی وسواس اور سوچ وبچار سے محفوظ رہتا ہے۔ اس کے علاوہ حدیث میں ہے:'' کہ انگلی کی یہ حرکت شیطان کے لئے لوہے (کے تیر) سے بھی زیادہ سخت ہے۔''(مسند امام احمد :2/119)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب