السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ڈجکورٹ سے علی محمد (خریداری نمبر 2003) لکھتے ہیں کہ جب دوران جماعت پہلی صف مکمل ہوچکی ہوتو بعد میں آنے والا کسی دوسرے نمازی کا انتظار کرے یا صف کے پیچھے اکیلا کھڑا ہوجائے یا اگلی صف سے آدمی کو کھینچ کر اپنے ساتھ ملائے اور نماز شروع کردے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
دوران نماز اگر کوئی جماعتی آتا ہے تو اس کے لئے جماعت میں شمولیت کی تین صورتیں ممکن ہیں:
(الف) وہ انتظار کرتا رہے کہ دوسرا آدمی آجائے اور اس کے ساتھ صف بنا کر نماز میں شامل ہوجائے لیکن ایسا کرنا شرعاً ناجائز ہے کیوں کہ حدیث میں ہے :
''جب تم میں سے کوئی نماز کےلئے آئے تو امام کو جس حالت میں پائے اسی حالت میں امام کےساتھ شامل ہوجائے۔(جامع ترمذی:الجمعۃ 591)
نیز حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم کسی سفر میں ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے، دوران سفر نماز کا وقت ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو نماز پڑھائی ،جب نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے دیکھا کہ ایک آدمی الگ تھلگ کھڑا ہے جس نے جماعت کے ساتھ نماز نہیں پڑھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے باز پرس کرتے ہوئے فرمایا:'' تو نے ہمارے ساتھ نماز کیوں نہیں ادا کی؟''اس نے عرض کیا کہ میں جنابت کی حالت میں تھا لیکن غسل کےلئے پانی نہ مل سکا۔اس لئے نماز میں شمولیت نہیں کی'آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''تجھے تیمم کرکے نماز میں شامل ہوجانا چاہیے تھا۔''(صحیح البخاری ؛التیمم 344)
اس کا مطلب یہ ہے کہ نماز کے لئے آنے والے کی نماز میں شمولیت ضروری ہے، البتہ اگر کوئی شرعی عذر ہوتو الگ بات ہے، صورت مسئولہ میں کوئی شرعی عذر ایسا نہیں جس کے پیش نظر اسے کسی دوسرے شخص کا انتظار کرنے کے لئے یونہی مسجد میں ٹہلنے اور پھرنے کی اجازت دی جائے۔
(ب) دوسری صورت یہ ہے کہ وہ اکیلا کھڑا ہوجائے جیسا کہ آج کل ''جدید تحقیق'' کی آڑ میں اس کی تلقین کی جاتی ہے، اس کے متعلق احادیث میں ممانعت ہے:
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کودیکھا جو صف کے پیچھے اکیلا نماز پڑھ رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دوبارہ نماز پڑھنے کاحکم دیا۔''(ابو داؤد الصلوۃ 682)
حضرت علی بن شیبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''صف کےپیچھے اکیلے آدمی کی نماز نہیں ہوتی۔''(ابن ماجہ :اقامۃ الصلوۃ 1003)
امیر صنعانی حدیث ابو داود کے پیش نظر لکھتے ہیں کہ'' جس نے صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھی اس کی نماز باطل ہے۔''(سبل السلام :2/593)
(ج) تیسری صورت یہ ہے کہ اگلی صف سے کوئی نمازی کھینچ کر اپنے ساتھ ملایاجائے، اس طرح صف بندی کرکے نماز میں شامل ہوجائے۔ہمارے نزدیک یہ صورت کتاب وسنت کے زیادہ قریب ہے کیوں کہ سنت میں اس کی نظیر ملتی ہے، وہ یہ ہے کہ جب امام اور ایک مقتدی ایک ساتھ نماز پڑھ رہے ہوں اسی حالت میں ایک تیسرا آدمی آجائے تو ا س کی شمولیت دوطرح سے ممکن ہے۔
امام کو آگے کردیا جائے اور خود مقتدی کے ساتھ صف بندی کرکے نماز شروع کردے۔
اگر آگے دیوار ہے تو مقتدی کو پیچھے کھینچ کراپنے ساتھ ملائے اور نماز اداکرے۔
اس پر قطع صف کے الزام اس لئے درست نہیں ہے کہ صف بندی کےلئے اس نے ایسا کیا ہے اور اس کے پیچھے آنے سے جوخلا پیدا ہوا ہے ،اسے دائیں یا بائیں جانب سے پر کرلیا جائے جیسا کہ دوران نماز اگر کسی کا وضو ٹوٹ جائے تو وہ بھی اس کی زد میں آتا ہے۔
واضح رہے کہ عورت کے اکیلے نماز پڑھنے کو امام کے پیچھے اکیلے کھڑے رہنے کےلئے نظیر نہیں قرار دیا جاسکتا ،کیوں کہ
عورت کو دوران جماعت اکیلی نماز پڑھنے کی اجازت ہے ،چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس کے متعلق ایک عنوان بایں الفاظ قائم کرتے ہیں:''عورت کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ اکیلی صف بنالے''پھر حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث کو بطور دلیل پیش کیا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کےگھر نماز باجماعت کا اہتمام فرمایا:میں اور ایک لڑکا آپ کے پیچھے اور حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا اکیلی ہمارے پیچھے کھڑی تھیں۔اسی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت کرائی۔(صحیح بخاری :الاذان 727)
اس سلسلہ میں ایک حدیث بھی ہے جسے امام طبری رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے جو ضعیف ہے، اس لئے ہم نے اسے بطور دلیل پیش نہیں کیا ۔اسے بطور تائید پیش کیا جاسکتا ہے۔(الاحادیث الضعیفہ :922)
چونکہ یہ مسئلہ اجتہادی ہے اس لئے ہم نے اس صورت کو اختیار کیا ہے جو کتاب وسنت سے زیادہ قریب ہے، دوسری دونوں صورتوں میں شرعی قباحتیں ہیں جن کی تفصیل ہم نے بیان کردی ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب