السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ستیانہ ضلع فیصل آباد سے حافظ محمد حماد لکھتے ہیں کہ آ پ نے اہل حدیث شمارہ نمبر 2 مجریہ 10 جنوری 2004ء میں نمازی کے سترہ کے متعلق لکھا ہے کہ ''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازی کو سترہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کا حکم دیا اور بغیر سترہ کے نماز پڑھنے سے منع کیا ہے اورآپ کا امر وجوب اور نہی تکریم کے لئے ہے۔ہاں اگر کوئی قرینہ ہوا تو امر وجوب کی بجائے استحباب کے لئے ہوتا ہے ۔لیکن یہاں کوئی ایسا قرینہ نہیں ہے کہ آپ کے امر کو وجوب کی بجائے استحباب پر محمول کیا جائے، پھر نہی سے مراد بھی نہی تحریم ہے۔ جس کامطلب یہ ہے کہ نماز کے لئے سترہ بناناواجب ہے۔اوراس کے بغیر نماز ادا کرنا حرام ہے۔(الی آخرہ)
لیکن ہمارے سامنے کچھ ایسی احادیث اور آثار قرائن ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ یہ امر وجوب کے لئے نہیں بلکہ استحباب کے لئے ہے۔آپ ان کی وضاحت فرمائیں:
٭ حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے والد حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ہمراہ شہر سے باہر ہماری رہائش گاہ میں تشریف لائے ،وہاں صحرا میں آپ نے بایں حالت نماز ادا کی کہ آپ کے آگے سترہ نہیں تھا۔(ابو داؤد الصلوۃ 718)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہم نے اپنے موقف کے لئے جو احادیث پیش کی تھیں وہ اپنے مفہوم میں صریح تھیں۔اس کے برعکس یہ جو احادیث پیش کی جاتی ہیں وہ صحیح نہیں اگرصحیح ہیں تو اپنے مفہوم میں صریح نہیں ہیں۔پیش کردہ حدیث کے متعلق علامہ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کاتبصرہ ہے کہ یہ باطل ہے۔اس کی وجہ انہوں نے یہ بیان کی ہے کہ عباس بن عبید اللہ بن عباس ہاشمی جو اپنے چچا حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں، انہوں نے اپنے چچا کو نہیں پایا ،اس انقطاع کی وجہ سے یہ حدیث ضعیف اور ناقابل استدلال ہے۔(محلیٰ ابن حزم :4/13)
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس راوی کو ''مقبول'' لکھا ہے۔(تہذیب التہذیب :5/123)
مقبول راوی کی روایت اس وقت قبول ہوتی ہے جب اس کی متابعت ہو ،لیکن مذکورہ حدیث کسی صحیح یا حسن حدیث سے نہیں ہوئی ،اگر ایک ضعیف حدیث کے مختلف طرق ہوں تو بعض اوقات اسے حسن لغیرہ کا درجہ حاصل ہوجاتا ہے۔ لیکن متعدد ضعیف روایات کا اجتماع انفرادی کمزوری کی تلافی نہیں کرسکتا، بہرحال یہ روایت ناقابل استدلال ہے۔ لہذا سترہ کا وجوب اپنی جگہ پر برقرار رہے گا۔ نیز پیش کردہ حدیث کے آخر میں یہ الفاظ ہیں کہ گدھی اور کتیا آپ کے آگے کھیل رہی تھیں۔ آپ نے ان کی کوئی پرواہ نہیں کی۔ حدیث کا یہ مضمون ان صحیح اور صریح احادیث کے خلاف ہے جن میں صراحت ہے کہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے،اور ایک بکری دوڑتی ہوئی آئی ،وہ آپ کے آگے سے گزرنا چاہتی تھی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا بطن مبارک دیوار کے ساتھ لگادیا حتیٰ کہ اس بکری کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سے گزرنا پڑا۔(صحیح ابن خزیمہ :827)
یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ گدھی اور کتیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے گھومتی رہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی پرواہ نہ کریں جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے فرمایا ہے:'' کہ کتا 'گدھا'اور عورت ان کا نمازی کے آگے سے گزرنے سے نماز کا خشوع متاثر ہوتا ہے۔''(صحیح مسلم الصلوۃ 266)
محدثین کرام رحمۃ اللہ علیہ کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل میں تعارض ہوتو قول کوترجیح دی جاتی ہے اور فعل کو خصوصیت پر محمول کیا جاتا ہے۔چنانچہ پیش کردہ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فعل بیان ہوا ہے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد اقوال اس کے معارض ہیں۔لہذا ان اقوال کو ترجیح دی جائے گی۔مختصر یہ ہے کہ مذکورہ حدیث اس قابل ہی نہیں کہ اسے صحیح اور صریح احادیث کے مقابلہ میں پیش کیاجائے۔اگر کوئی ان کے معارضہ پراصرار کرتا ہے تو اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل بیان ہوا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کے مقابلے میں مرجوح ہے۔
٭ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے مسند البزار کے حوالہ سے حدیث نقل کی ہے:''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےسامنے کوئی چیز بطور سترہ نہ تھی جو ہمارے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان حائل ہو۔''(نیل الاوطار :3/12)
ہمارے نزدیک اس حدیث کی صحت مسلم نہیں ہے کیوں کہ اس کی سند میں عبدالکریم بن ابی المخارق راوی ہے جسے محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔(تہذیب التہذیب :6/376)
جن حضرات نے اسے صحیح کہا ہے انہوں نے اسے عبد الکریم الجزری خیال کیا ہے۔علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی صحت کو تسلیم کرتے ہوئے یہ جواب دیا ہے کہ اس سے مطلق سترے کی نفی نہیں ہوتی۔بلکہ ایسے سترہ کی نفی کرتی ہے جو لوگوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان حائل ہو، جیسے بلند دیوار وغیرہ جو دونوں کے درمیان ایک دوسرے کو دیکھنے سے مانع ہو، محدث عراقی نے بھی یہی موقف اختیار کیا ہے۔(مرعاۃ المفاتیح :3/499)
لہذا ایسی محتمل روایت صحیح اور صریح احادیث کے خلاف دلیل نہیں بن سکتی۔ واضح رہے کہ ا س حدیث کے بنیادی الفاظ جو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے نقل کیے ہیں وہ حسب ذیل ہیں :'' حضر ت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک گدھی پر سوار ہوکر آیا اور میں اس وقت قریب البلوغ تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت دیوار کے سوا کسی اور چیز کاسترہ کرکے لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے۔صف کے کچھ حصے سے گزر کر میں اپنی سواری سے اترا اور گدھی کوچرنے کے لئے چھوڑ دیا اور خود صف میں شامل ہوکر شریک نماز ہوگیا۔کسی نے ا س وجہ سے مجھ پر اعتراض نہیں کیا۔''(صحیح بخاری :493)
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے سترہ کو ثابت کیا ہے جبکہ امام بیہقی نے اس سے سترہ کی نفی کو ثابت کیا ہے۔ اور اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے:''سترہ کے بغیر نماز پڑھنا''لیکن حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کامعاملہ انتہائی تعجب خیز ہے کہ وہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ عنوانات سے احادیث کی مطابقت اور صحت استدلال کے لئے بڑی کوشش وکاوش کرتے ہیں۔ لیکن اس مقام پر وہ امام بیہقی سے متاثر نظر آتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے سترے کے متعلق امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کااستدلال محل نظر ہے۔(فتح الباری :1/739)
اگر حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اور امام بیہقی دقت نظر سے کام لیتے تو معاملہ اس کے برعکس ہوتا ۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے پیش نظر یہ نکتہ تھا کہ حدیث میں ''غیر جدار'' کے الفاظ ہیں اورغیر کا لفظ ہمیشہ کسی سابق کی صفت ہواکرتا ہے، اس لئے حدیث کا معنی یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیوار کے علاوہ کسی دوسری چیز کو سترہ بنا کر نماز پڑھ رہے تھے ،نفی جدار کافائدہ بھی اس وقت ہوگا کہ وہاں کسی دوسری چیز کا سترہ ہو ، بصورت دیگر نفی لغو ہوگی ۔نیز حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ دوران جماعت میرے صف کے کچھ حصے کے آگے سے گزرنے کے باوجود مجھ پر کسی نے اعتراض نہیں کیا۔کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے سترہ موجود تھا۔وہی سترہ مقتدی حضرات کےلئے کافی تھا،اس لئے اعتراض کی گنجائش ہی نہیں تھی۔ اس حدیث پر ہم نے اپنی زیر ترتیب شرح بخاری میں سیر حاصل بحث کی ہے، قارئین سے استدعا ہے کہ وہ اس کی تکمیل کےلئے دعا کرتے رہیں۔
٭ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اس سلسلہ میں ایک صحابی کا عمل نقل کرتے ہیں کہ حضرت عروہ بن زبیر رحمۃ اللہ علیہ نے صحرا میں سترہ کے بغیر نماز پڑھی۔(موطا امام مالک :باب سترہ المصلی فی السفر)
وضاحت:اس حدیث میں صحابی کا نہیں بلکہ ایک تابعی کا عمل پیش کیا گیا ہے۔کیونکہ حضرت عروہ بن زبیر رحمۃ اللہ علیہ تابعی ہیں۔صحیح احادیث کے مقابلے میں ایک تابعی کے عمل کی کوئی حیثیت نہیں ہے ،ہاں اس سے پہلی حدیث میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا عمل بیان کیاگیا ہے کہ وہ سفر میں بھی سترہ کااہتمام کرتے تھے۔(موطا امام مالک)
حضرت قرۃ بن اباس کہتے ہیں کہ میں دو ستونوں کے درمیان نماز پڑھ رہا تھا کہ مجھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے گدی سے پکڑ کر سترہ کے قریب کردیا اور فرمایا کہ اس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھ۔(صحیح بخاری:تعلیقاً مع الفتح :1/577)
مصنف ابن ابی شیبہ میں اس روایت کو موصولاً بیان کیا گیا ہے۔(مصنف ابن ابی شیبہ :3/370)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’کہ تم میں سے جب کوئی نماز پڑھے تو سترے کی طرف رخ کرکے پڑھے اور اس کے قریب کھڑا ہو تا کہ شیطان اس کے آگے سے نہ گزر سکے۔‘‘(مصنف ابن ابی شیبہ :1/279)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سترے کا اس قدر اہتمام کرتے کہ اگر مسجد میں کوئی ستون نہ ملتا تو حضرت نافع رضی اللہ عنہ سے کہتے کہ تم اپنی پیٹھ میر ی طرف کرکے بیٹھ جاؤ تاکہ میں تیری طرف رخ کرکے نماز پڑھوں۔(مصنف ابن ابی شیبہ :1/279)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:'' کہ نماز کی زیادتی اور بے انصافی یہ ہے کہ وہ سترہ کے بغیر نماز پڑھے۔''(بیہقی:2/285)
حضرت سلمہ ابن اکوع رضی اللہ عنہ صحرا میں کسی پتھر کو سامنے گاڑ لیتے ، پھر ا س کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے۔(مصنف ابن ابی شیبہ :1/278)
ان آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تو نماز کے لئے سترہ کاازحد اہتمام کرتے۔
٭ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ر وایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحرا میں بایں حالت نماز ادا کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے کوئی چیز نہ تھی۔(مسند امام احمد :1/444)
وضاحت: اس روایت کو سید سابق رحمۃ اللہ علیہ نے سترہ کے استحباب کے پیش نظر اپنی کتاب فقہ السنۃ میں بیان فرمایا ہے لیکن روایت ناقابل استدلال ہے۔کیونکہ اس میں ایک راوی حجاج بن ارطاۃ ہے جسے محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔(مجمع الزوائد :2/66)
اس کے علاوہ یہ مدلس بھی ہے اور اس نے مذکورہ روایت ''عن''کے صیغہ سے بیان کی ہے۔(تمام المنۃ:305)
علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔(الاحادیث الضعیفہ :رقم 5804)
علامہ بیہقی نے اس روایت کے متعلق لکھا ہے کہ مذکورہ روایت کی تائید حضرت فضل بن عباس کی روایت سے بھی ہوتی ہے لیکن تائید میں پیش کی جانے والی روایت کے متعلق امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ منقطع ہے۔کیونکہ عباس بن عبید اللہ نے اپنے چچا حضرت فضل بن عباس کو نہیں پایا، اس کے علاوہ ماہر فن ابن قطان فرماتے ہیں کہ عباس بن عبید اللہ مجہول ہے جس کے حالات کا کوئی اتا پتا نہیں ہے۔(تمام المنۃ :305)
٭ نماز مغر ب سے پہلے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سنتیں پڑھنے کےلئے ستونوں کی طرف جلدی کرتے، مسجد نبوی میں اس قدر ستون نہ تھے کہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لئے سترہ کا کام دے سکتے۔اس سے معلوم ہوا کہ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سترہ کے بغیر نماز پڑھتے تھے۔
وضاحت: جس روایت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اسے حضرت انس بن مالک رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ جب مؤذن اذان دیتا تو کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کھڑے ہوجاتے اور جلدی جلدی ستونوں کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے۔یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے۔(صحیح البخاری :625)
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سترہ کا اہتمام کرتے۔کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سترہ کےلئے ستونوں سے کام لیتے ،باقی ایک دوسرے کے پیچھے کھڑے ہوجاتے۔پھر سامنے والی دیوار کو بھی سترہ بنا لیا جاتا تھا۔
ہمیں تعجب ہوتا ہے کہ جب ایک چیز صحیح احادیث سے ثابت ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل نے اسے مزید تقویت دی ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی اس پر عمل پیرا نظر آتے ہیں، تو پھر اس قسم کے موہوم خدشات کے پیش نظر اسے نظر انداز کردیا جائے۔بہر حال اس قسم کے دلائل وجوب سے استحباب کے لئے ''قرینہ صارفہ '' نہیں ہوسکتے۔
٭ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت بیان کی ہےکہ آپ نے ان لوگوں پر اعتراض کیا جو کہتے ہیں کہ کتے ،گدھے اور عورت کے آگے سے گزرنا قاطع صلوۃ ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کاشکوہ تب ہی درست ہوسکتا ہے جب نمازی کے سامنے سترہ نہ ہو۔ ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاؤں کوہاتھ لگاتے تو آپ اپنے پاؤں سکیڑ لیتیں اور جب آپ سجدے سے فارغ ہوجاتے تو پاؤں پھیلا دیتیں۔پاؤں کو سکیڑنا اور پھیلانا مرور ہی تو ہے؟
وضاحت: برخوردار دراصل یہ کہنا چاہتے ہیں کہ رات کے وقت جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تہجد پڑھتے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آپ کے سامنے ہوتیں اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آپ کے سامنے بیٹھنے کو پسند نہ کرتیں، چنانچہ وہ پائنتی کی طرف سے کھسک کر لحاف سے باہر نکل جاتیں، اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے گزر جاتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کوئی سترہ نہیں ہوتا تھا ،لیکن روایت کے تتبع سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں دو واقعات ہیں۔ ایک واقعہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا چار پائی پر ہوتیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نیچے اتر کر چار پائی کو سترہ بنا کر نماز پڑھتے۔اس صورت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جنازہ کی طرح آپ کے سامنے لیٹی رہتیں، جب آپ کو ضرورت ہوتی تو پائنتی کی طرف سے کھسک کر باہر نکل جاتیں، اس میں آپ کے پاؤں کوہاتھ لگانے اور انہیں سمیٹنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس صورت پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے:''چار پائی کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنا'' یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے چار پائی بطور سترہ ہے۔اگرحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اٹھ کر چلی جاتیں تو چار پائی آپ کے سامنے رہتی اور سترے کا کام دیتی،امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کو متعدد مقامات پر بیان کیا ہے۔(508۔511۔512۔514۔519)
دوسرا واقعہ یہ ہے کہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی بستر پر نماز پڑھتے جہاں عائشہ رضی اللہ عنہا لیٹی ہوتی تھی۔اس صورت میں سترہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی ذات گرامی ہوتی ،چنانچہ سجدہ کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ رضی اللہ عنہا کے پاؤں کو دباتے تو وہ ان کو سمیٹ لیتیں، سجدہ سے فراغت کےبعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا انہیں پھیلادیتیں۔اس واقعہ میں لحاف سے نکل کر باہر جانے کی صورت ہے۔اس روایت پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے:''عورت کو سترہ بنا کرنوافل پڑھنا'' اسے بھی متعدد مقامات پر ذکر کیاہے۔(513'519'1209)
بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کامعمول تھا کہ گھر ،مسجد، آبادی، صحرا، منیٰ ،عرفات ،بیت اللہ الغرض جہاں بھی نماز پڑھتے سترہ کا اہتمام کرتے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی اس پر عمل پیرا تھے۔اس لئے یہ نمازی کی ذمہ داری ہے کہ وہ خود سترہ کا اہتمام کرے۔اہل مسجد کی ذمہ داری نہیں کہ وہ متعدد'' سترات'' کا مسجد میں بندوبست کرکے رکھیں۔اس قسم کی سہولیات فراہم کرنا انتظامیہ کی ذمہ د اری نہیں ہے۔مومن کی یہ شان ہے کہ جب بھی کوئی معاملہ صحیح احادیث سے ثابت ہوجائے تو وہ اس پر عمل پیرا ہونے کی فکر کرے۔نہ کہ اسے نظر انداز کرنے کےلئے موہوم خدشات یا پائے چوبین کا سہارا لے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب