السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
لاہور دفتر اہل حدیث سے محترم رحمت اللہ صاحب سوال کرتے ہیں کہ دوران نماز سترہ کی کیا حیثیت ہے؟ کیا مسجد کے اندر یا اس کے صحن میں بھی اس کا اہتمام کرنا چاہیے؟قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب دیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نماز دین اسلام کا ایک اہم رکن ہے اس کے متعلق کئی ایک ایسے احکام ہیں جن کی پابندی انتہائی ضروری ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ اسے اداکرتے وقت سترہ کا اہتمام کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بہت تاکید فرمائی ہے۔بلکہ عمل کے لحاظ سے بھی اس کی مداومت فرمائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
''جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو سترہ کی طرف پڑھے ،نیز اس سترہ کے نزدیک ہوکر اسے اداکرے۔''(ابوداؤد الصلوۃ 698)
ایک روایت میں ہے قریب ہوکر نماز پڑھنے کی حکمت اس طرح بیان کی گئی ہے کہ:
''مبادا شیطان اس کی نماز کو خراب کردے۔''(ابوداؤد695)
ایک دوسری حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:
''تم سترہ کے بغیر نماز نہ پڑھو۔اور کسی کو اپنے آگے سے گزرنے نہ دو اگر کوئی روکنے کے باوجود بزور گزرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے سختی سے روکا جائے ۔کیوں کہ گزرنے والے کے ساتھ شیطان ہے۔''(صحیح مسلم :الصلوۃ 1130)
اس سترہ کے حجم کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' کہ جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو اپنے آگے ضرور سترہ رکھے اگرچہ تیر ہی کیوں نہ ہو۔''(مسند امام احمد :1/162)
ان احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازی کو سترہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے۔اور بغیر سترہ کے نماز پڑھنے سے منع کیا ہے۔ واضح رہے کہ آپ کا امر وجوب کےلئے اور نہی تحریم کے لئے ہے۔ہاں اگر کوئی قرینہ ہوتو وجوب کی بجائے استحباب کے لئے ہوتا ہے۔لیکن یہاں کوئی ایسا قرینہ نہیں ہےکہ آپ کے امر کو وجوب کی بجائے استحباب پر محمول کیاجائے۔پھرنہی سے مراد بھی نہی تحریمی ہے۔جس کا مطلب یہ ہے کہ نماز کےلئے سترہ بنانا واجب اور اس کے بغیر نماز ادا کرنا حرام ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی سے بھی اس موقف کی تائید ہوتی ہے کہ آپ نے اس پرمداومت کی ہے۔چنانچہ حدیث میں ہے کہ:
''آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز عید کے لئے باہرنکلتے تو نماز کے لئے چھوٹے نیزے کو اپنے سامنے گاڑ دینے کا حکم دیتے ۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف نماز پڑھتے۔دوسرے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ہوتے، دوران سفر بھی آپ ایسا کرتے تھے۔''(صحیح بخاری :الصلوۃ، 494)
''حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ میں خود کو دیکھتی کہ چار پائی پرلیٹی ہوتی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے، میری چار پائی کو اپنے اور قبلہ کے درمیان کرلیتے، پھر نماز پڑھ لیتے۔میں اس حالت میں آپ کے سامنے لیٹے رہنے کو ناپسند کرتی تو چا ر پائی کی پائینتی کی طرف سے کھسک کرلحاف سے نکل جاتی۔''(صحیح بخاری :الصلوۃ 508)
اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں ہوتے تو مسجد کے کسی ستون کو آگے کرتے اور نماز پڑھتے ،چنانچہ حدیث میں ہے کہ سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ مسجد نبوی میں مصحف کے قریب والے ستون کے پاس نماز پڑھتے اور فرماتے کہ:
'' میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھاکہ وہ اس کے پاس قصداً نماز پڑھتے تھے۔''(صحیح بخاری: الصلوۃ 502)
دوران سفر اگرکوئی دیوار ہوتی تو اسے سترہ بنا لیاجاتا۔چنانچہ حدیث میں ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیوار کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی ،آپ نے اسے سترہ بنایا، دوران نماز بکری کا ایک بچہ آیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے سے گزرنے لگا، آپ اسے روکتے رہے حتیٰ کہ آپ کا بطن مبارک دیوار کے ساتھ لگ گیا اور وہ بچہ آپ کے پیچھے سے گزر گیا۔(ابوداؤد الصلوۃ 708)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے آثار سے بھی سترہ کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کسی آدمی کو جو کہ دو ستونوں کے درمیان نماز پڑھ رہا تھا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے ستون کے قریب کردیا، اور فرمایا کہ اس کی طرف نماز پڑھ۔(صحیح بخاری تعلیقاً کتاب الصلوۃ ،باب الصلوۃ الی الاسطوانہ)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے متعلق حدیث ہے کہ وہ پالان کو اپنے اور قبلہ کے درمیان کرتے اور ا س کی طرف نماز پڑھتے۔(مصنف عبد الرزاق :حدیث نمبر 2374)
حضرت انس رضی اللہ عنہ کے متعلق ہے کہ وہ مسجد حرام میں اپنی لاٹھی گاڑھ لیتے اور اس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے۔حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے متعلق ہے کہ وہ جمعہ کے دن سترہ بناکر نماز پڑھ رہے تھے کہ بنو ابی معیط کے ایک نوجوان نے ان کے سامنے سے گزرنا چاہا حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے انہیں روکا ،جب وہ باز نہ آیا تو آپ نے اس کو سینے پر مارا۔(صحیح بخاری الصلوۃ 509)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب مؤذن اذان دیتا تو کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کھڑے ہوجاتے۔اور جلدی جلدی ستونوں کے طرف بڑھتے یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے اور وہ یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس طرح مغرب سے پہلے دو رکعت ادا کرتے۔(صحیح بخاری الصلوۃ 625)
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ستونوں کا رخ اس لئے کرتے تھے تاکہ نماز کے لئے انھیں سترہ بنائیں۔کیوں کہ وہ علیحدہ علیحدہ نماز پڑھتے تھے۔(فتح الباری :2/137)
ان آثار سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نماز پڑھتے وقت سترے کا بہت اہتمام کرتے تھے۔مسجد کے اندر بھی سترہ کا اہتمام کرنا چاہیے کیوں کہ احادیث کے عموم کا یہی تقاضا ہے۔پھر متعدد روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم انفرادی نماز میں ستونوں کارخ کرتے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود بھی یہی عمل تھا۔جیسا کہ بخاری کے باب الصلوۃ الی الاسطوانہ میں ہے ،پھر اہل علم کا اختلاف ہے کہ مسجد حرام میں سترہ ہوناچاہیے یا نہیں؟ اگر مسجد کے اندر سترہ کاتصور نہ ہوتا تو اس اختلاف کی چنداں ضرورت ہی نہ ہوتی۔
ایک استثنائی صورت: اگر کوئی شخص نماز کھڑی ہونے کے بعد شامل ہوا ہے تو بقیہ نماز ادا کرنے کےلئے اسے تلاش سترہ ضروری نہیں ہے بلکہ اس طرح کا لاحق مقتدی موجودہ ہیت میں ہی نماز مکمل کرے اور نہ ہی پیشگی کسی سترہ کے بندوبست کی ضرورت ہے۔ غزوہ تبوک کے سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فجر کے وقت ایک رکعت جماعت رہ گئی تھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد میں ادا فرمائی، حالت قضائی میں ثابت نہیں ہوسکا کہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سترہ کا اہتمام کیا ہو۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب