السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ملتان سے ایک صاحب لکھتے ہیں کہ فیصل آباد سے کچھ پوسٹرز شائع ہوئے ہیں جن پر کسی شخص کی تصاویر کی مدد سے نماز کا طریقہ سکھایاگیاہے، تصاویر میں گردن کا اوپر کاحصہ چھپا دیا گیا ہے کیا ایسے پوسٹر مسجد میں لگائے جاسکتے ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بلاشبہ فتنہ تصویر نے پوری امت کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ حالانکہ شریعت مطہرہ نے تصویر کشی کی سخت حوصلہ شکنی کی ہے۔بچے کی پیدائش سے لے کر زندگی کے مختلف مراحل میں اس فتنہ سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔حتیٰ کہ مذہبی حضرات کی اسلامی تقریبات بھی اس کے بغیر ادھوری خیال کی جاتی ہیں۔اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات ملاحظہ ہوں:
''قیامت کے دن مصور حضرات اللہ کے ہاں سخت ترین عذاب سے دو چار ہوں گے۔''(صحیح بخاری :کتاب اللباس)
''اللہ نے تصویر کشی کرنے والے پر لعنت کی ہے۔''(صحیح بخاری : کتاب الادب)
''جس گھر میں تصاویر ہوں وہاں رحمت کے فرشتے نہیں جاتے۔''(صحیح بخاری :کتاب اللباس)
''جو حضرات تصویرکشی کرتے ہیں،قیامت کے دن انھیں عذاب دیا جائے گا اور انھیں کہا جائے گا کہ اپنی تخلیقات میں جان ڈالیں۔''(صحیح بخاری :کتاب اللباس)
''فوٹو گرافر اللہ کے ہاں عذاب سے دو چار ہوگا تاآنکہ اس میں جان ڈالے، حالانکہ وہ اس میں کبھی جان نہیں ڈال سکے گا۔''(صحیح بخاری کتاب البیوع)
''اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہوسکتا ہے جو اللہ کی صنعت تخلیق کی نقالی کرتا ہے، زرا یہ حضرات مکئی گندم یا جو کہ ایک دانہ تو پیدا کرکے دیکھائیں۔''(صحیح بخاری کتاب اللباس)
اس قدر وعید شدید کے باوجود اس کے متعلق کچھ استثنائی حالتیں بھی منقول ہیں جن کی تفصیل یہ ہے:
اگر کسی فائدے کا حصول تصویر کے بغیر ممکن نہ ہوتو تصویر بنائی جاسکتی ہے۔مثلاً:
1۔عمل جراحی کے لئے تصاویر سے مدد لینا۔
2۔عالم اسلام کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لئے زخمی مجاہدین کی تصاویر لینا۔
3۔مجرمین کو پکڑنے کےلئے تصویری خاکے شائع کرنا۔
4۔بچیوں کو امور خانہ داری کی تربیت دینے کےلئے گڑیوں کا استعمال کرنا۔
اس استثنائی حالت کے جواز پر وہ احادیث دلالت کرتی ہیں جن میں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی گڑیاں تھیں۔جن سے وہ کھیلا کرتی تھیں۔(بخاری ومسلم)
لیکن ان میں کتوں بندروں اور خنذیر وں کی تصاویر شامل نہیں ہیں۔
٭ ان تصاویر کی توقیر وتعظیم اور زیبائش ونمائش ختم کردی جائے۔مثلا چٹائی ،گدے اور کمبل وغیرہ جنھیں نیچے بچھایا جاتا ہو۔اور تصاویر کو پاؤں تلے روندا جاتا ہو اگر ان پر تصاویر ہوں اور لاعلمی میں خرید لیا جائے تو بایں طور پراستعمال میں کوئی حرج نہیں ہے اس کے جواز پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی وہ حدیث دلالت کرتی ہےجس میں تصویر دار کپڑے کو پھاڑ کرتکیہ بنالینے کا ذکر ہے۔(صحیح بخاری)
ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا کہ آپ نے اس تکیہ کواستعمال کیا حالانکہ اس میں تصویر موجودتھی۔(مسند احمد :6/229)
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے:
''ان تصاویر کا بیان جنھیں رونداجائے۔''
لیکن اس جواز کے باوجود تقویٰ شعارحضرات کو چاہیے کہ اس قسم کی تصاویر سے بھی پرہیز کیاجائے، چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس عنوان کے بعد ایک اور عنوان قائم کرکے اپنے ر جحان کااظہار کرتے ہیں ''جوتصاویر پر بیٹھنے کوبھی مکروہ سمجھتا ہے۔''
٭ ان تصاویر کے سر کاٹ کر انھیں درختوں کی طرح بنادیا جائے ،اس حالت میں انھیں گوارا کیاجاسکتا ہے۔جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کچھ مورتیاں تھیں۔حضرت جبرائیل علیہ السلام کی آمد معطل ہوگئی۔پھر آپ کو ہدایت کی گئی کہ گھر میں جو مورتیاں ہیں ان کےسر کاٹ کر انھیں درختوں کی طرح کردیا جائے۔(مسند امام احمد :2/305)
٭ ایسی اشیاء کی تصویریں بنائی جاسکتی ہیں جن میں روح نہ ہو جیسے درخت سمندر پہاڑ وغیرہ کی منظر کشی کرنا، جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ایک فوٹوگرافر کو ہدایت کی تھی جس کا ذریعہ معاش ہی تصویر کشی تھا کہ تم درختوں اور ایسی چیزوں کی تصاویر بناؤ جن میں ر وح نہ ہو۔(صحیح بخاری کتاب البیوع حدیث نمبر 2225)
صورت مسئولہ میں جن تصاویر کے متعلق دریافت کیاگیا ہے،ان کے سر چھپائے گئے ہیں۔ یہ برائے نام تصاویر ہیں ،لہذا ایسے پوسٹروں کو مساجد میں آویزاں کیا جاسکتا ہے۔پھر ان میں تصاویر کے ذریعے ایسی غلطیوں کی نشان دہی کی گئی ہے جن کا ارتکاب دوران نماز کیاجاتا ہے۔ جیسا کہ جماعت کے ساتھ نماز ادا کرتے ہوئے پاؤں اور ایڑیاں ملانا، ہاتھ اٹھانا، ہاتھ باندھنا ، رکوع کا طریقہ ،بحالت رکوع گھٹنے پکڑنا ،سجدہ کرنے کاطریقہ، بحالت سجدہ ہاتھ رکھنے اور پاؤں ملانے کا طریقہ، تشہد بیٹھنا اور آخری تشہد میں تورک کرنا، ان تمام مقامات پر بالعموم جو غلطیاں کی جاتی ہیں، اس پوسٹر میں عملی طور پر ان کی وضاحت کی گئی ہے، پھر صحیح طریقہ سے آگاہ بھی کیا گیا ہے۔واضح رہے کے اس اشتہار کی ترتیب وتسوید کےلئے متعدد شیوخ الحدیث کی تائید بھی حاصل کی گئی ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب