سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(38) مسجد کے پلاٹ کی بولی لگانا

  • 11162
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1373

سوال

(38) مسجد کے پلاٹ کی بولی لگانا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

پیر محل سے حافظ عبداللطیف لکھتے ہیں کہ ہمارے ہاں ایک مسجد تقریباً تیس سال قبل تعمیر ہوئی تھی۔مسجد کےپلاٹ کی جب بولی ہوئی تو اس وقت تین جماعتی احباب پیش پیش تھے۔ ان میں عبدالغنی جٹ کے نام مسجد کا پلاٹ الاٹ کیا گیا تھا۔ پلاٹ چونکہ وقف نہ تھا، اس لیے عبد الغنی کی وفات کے بعد اس کی اولاد کے نام منتقل ہوگیا، اب جن کے نام انتقال ہوا ہے ان میں سے کچھ حضرات نے اس سابقہ مسجد اہل حدیث کو از سر نوتعمیرکیا ہے۔ لیکن وقف نہ ہونے کی وجہ سے جماعتی احباب شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ اکثریت کا موقف ہے کہ مسجد مذکورہ جماعت اہل حدیث کے نام وقف ہونی چاہیے، جبکہ عبدالغنی کی اولاد اس کے لئے آمادہ نہیں، اب سوال یہ ہے کہ کیا اس مسجد میں نماز ہوجاتی ہے؟نیز مسجد مذکور کا جماعت اہل حدیث کے نام وقف ہونا ضروری ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا یہ خاصہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے روئے زمین کو مسجد قرار دیاگیا ہے۔ آپ کے لئے یہ اعزاز ہے کہ جہاں کہیں اسے نماز کا وقت ہوجائے وہیں نماز پڑھ لو۔(صحیح البخاری حدیث نمبر 335)

اس عمومی خصوصیت کے علاوہ مساجد کی دو اقسام ہیں۔ ایک یہ کہ گھر یا کھیت یا فیکٹری کے کسی حصہ میں مسجد بنالی جائے اور وہاں نماز پڑھائی جائے، اس قسم کی مسجد کے لئے جملہ لوازمات از قسم اذان، جماعت اور جمعہ وغیرہ کا ہونا ضروری نہیں ہے۔جیسا کہ حضرات عتبان بن مالک نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گزار ش کی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی وقت میرے گھر آکر نمازپڑھیں تاکہ ہم اہل خانہ اس جگہ کو جائے نماز بنالیں اور بوقت ضرورت وہاں نماز پڑھ لیا کریں چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی خواہش کے پیش نظر ایک مرتبہ گھر کے ایک مقام پر دورکعت ادا کیں۔(صحیح البخاری حدیث نمبر 425)

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے کہ گھروں میں مسجد بنانا مشروع ہے ، اس قسم کی مسجد کاوقف ہوناضروری نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس گھر میں اس طرح کی مسجد سے ہو، اسے فروخت کیا جاسکتا ہے اور وہ بطور وراثت تقسیم بھی ہوسکتا ہے۔ دوسری قسم یہ ہے کہ مسجد کو اس کے آداب ولوازمات کے ساتھ تعمیر کرنا، اس میں نماز، جماعت اور جمعہ کا اہتمام ہو اور بوقت نماز ہر کلمہ گو مسلمان کو اس میں نماز ادا کرنے کی آزادی ہو، اس قسم کی مسجد کا وقف ہوناضروری ہے تاکہ کوئی بھی نمازیوں کے لئے نماز کی ادائیگی میں رکاوٹ نہ ڈال سکے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو اپنا گھر بنانےسے پہلے اللہ کا گھر بنانے کو ترجیح دی اور اس کے لئے ایک جگہ کا انتخاب فرمایا اور اس جگہ کے مالکان بنو نجار سے کہا کہ تم اس جگہ کی قیمت وصول کرکے اسے ہر قسم کے بار ملکیت سے مبرا کردو۔ انہو ں نے بڑی فراخ دلی سے کہا کہ ہم اس کی قیمت اللہ تعالیٰ سے اجروثواب کی صورت میں وصول کریں گے۔اس طرح جب وہ وقف ہوگئی تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں مسجد تعمیر کی۔(صحیح بخاری حدیث نمبر 428)

اس حدیث پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے:'' مسجد کے لئے زمین وقف کرنے کا بیان'' ۔ اس کے علاوہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

''کہ ا س شخص سے بڑھ کر اور کون ظالم ہوسکتا ہے جو اللہ کی مساجد میں اس کا ذکر کرنے سے لوگوں کو روکتا ہے۔''(2/البقرۃ :114)

اس آیت سے معلوم ہوا کہ مسجد ایک وقف عام چیز ہے اس سے کسی کو منع نہیں کیاجاسکتا بصورت دیگر روکنے والا بہت بڑا ظالم ہوگا اور یہ ظاہر بات ہے کہ اگر مسجد پر کسی کا قبضہ یا وہ کسی کی ملکیت ہوتو اسے اپنے تصرف واختیار کے پیش نظر اس سے روک سکتا ہے کیوں کہ ملک سے مقصود تصرف و اختیار کا استعمال ہوتا ہے،خواہ وہ دوسروں کو روکے یا اسے فروخت کرے یا ہبہ کرے۔صورت مسئولہ میں اس قسم کی صورت حال درپیش ہے کہ مرحوم عبدالغنی کے نام مسجد کا پلاٹ الاٹ ہوا ،اس نے وقف نہ کیا ،چنانچہ اس کی وفات کے بعد وہ پلاٹ خود بخود اس کی اولاد کے نام انتقال ہوگیا ،جو جماعت کے لئے اختلاف وانتشار کا باعث ہے۔ لہذا پسماندگان کو چاہیے کہ وہ پلاٹ مسجد کے نام وقف کریں اوروقف میں لفظ اہل حدیث ضرور ذکر کریں۔پھر اس کا انتظام خود کریں یاجماعت کے حوالے کردیں، اس میں انہیں اختیار ہے لیکن وہ اس جگہ کو اپنی ملکیت میں رکھنے کے مجاز نہیں ہیں۔ اگر وہ اس جگہ کو وقف نہ کریں تو مصلحتا ً اس میں نماز ادا کرناترک کیا جاسکتاہے۔ لیکن جماعت کے لئے یہ اصرار درست نہیں کہ وہ انجمن کے نام وقف کریں، لہذا ہم فریقین سےعرض کرتے ہیں کہ وہ آپس میں سرجوڑ کر مسجد کی آبادی کے متعلق غور وفکر کریں ،اس کی بربادی کا ذریعہ بن کر دوسروں کے لئے جگ ہنسائی کا سامان پیدا نہ کریں۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:78

تبصرے