السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
دفتر اہل حدیث لاہور کے حافظ محمد عثمان مدنی لکھتے ہیں کہ ایک آدمی نے اپنی زندگی میں تقریباً دو کنال قطعہ اراضی زبانی طور پر مسجد کے لئے وقف کیا۔لیکن قانونی طور پر وقف نامہ لکھنے سے پہلے وہ فوت ہوگیا،اس کے بیٹے نے وہ موقوفہ زمین کسی دوسرے شخص کو فروخت کردی، اس کی قیمت وصول کرکے خریدار کے نام رجسٹری کرادی، اب مسجد کی انتظامیہ اور خریدار کا باہمی تنازعہ پیدا ہوا۔مسجد والے کہتے ہیں کہ فروخت شدہ زمین مسجد کے لئے وقف ہے،جب کہ خریدار کادعویٰ ہے کہ میں نے اسے رقم صرف کرکے خریدا ہے اور میرے نام رجسٹری ہے۔ پنچائتی فیصلہ یہ ہوا کہ خریدار مسجد کو موجودہ زمین سے نو مرلے دے گا اور وضو خانہ و باتھ وغیرہ بھی تعمیر کرادے گا۔ فریقین اس پر راضی ہوگئے۔اور اس پرعمل درآمد بھی کرادیا گیا، اب مسجد کی انتظامیہ کے بعض افراد پھر مطالبہ کررہے ہیں کہ مسجد کو دو کنال قطعہ اراضی ملنا چاہیے جب کہ خریدار کہتا ہے کہ یہ سراسر زیادتی اور حق تلفی ہے۔وضاحت فرمائیں کہ اس تنازعہ میں زیادتی کا مرتکب کون اور حق بجانب کون ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
واضح رہے کہ کسی قیمتی چیز کو اللہ تعالیٰ کی ملک میں مقیدکردینا اور اس کے منافع کو دوسروں پر نیک نیتی کے ساتھ ہمیشہ کے لئے صدقہ کردینے کا صاف اور صریح اظہار وقف کہلاتا ہے۔ وقف کے لئے شرعی طور پرکسی تحریری دستاویزات کی ضرورت نہیں ہے۔ کسی جائداد کے بطور وقف استعمال سے بھی ا س کا وقف ہونا ثابت کیا جاسکتا ہے۔ البتہ ازروئے قانون وقف کا تحریری ہونا ضروری قراردیا گیا ہے ۔وقف کے جواز کے لئے حسب ذیل شرائط کا ہونا لازمی ہے۔
٭وقف کنندہ عاقل ،بالغ اور آزاد ہو۔
٭ وقف کے وقت شیئ موقوفہ کا مالک ہو۔
٭ وقف کردہ چیز ہر قسم کے بار کفالت سے مبرا ہو۔
٭وقف کردہ چیز کو موقوف علیہ کے حوالے کرنے پر قادر ہو۔
٭وقف کا اعلان نیک نیتی اورحقیقی ارادے کے ساتھ ہو، اس میں کسی وارث کونقصان پہنچانا مقصود نہ ہو۔
جب ان شرائط کے مطابق وقف مکمل ہوجائے تو پھر وقف شدہ چیز کو اپنے ذاتی مقاصد کے لئے نہ تو فروخت کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی کسی اور کو ھبہ یا وراثت میں دیا جاسکتاہے۔جیسا کہ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت فرمائی ہے۔(صحیح البخاری:2737)
اس طرح وقف کے بعد اگر کوئی وارث وقف شدہ چیز کو اپنے ذاتی مقاصد کے لئے فروخت کرتا ہے تو اس فروختگی کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا کیونکہ حدیث کے مطابق یہ ظالمانہ تصرف ہے جسے شریعت نے غیر معتبر ٹھہرایا ہے۔(صحیح البخاری المزار ع 2335)
حدیث میں اس قسم کے تصرف کو عرق ظالم سے تعبیر کیاگیا ہے۔جس کی وضاحت راوی حدیث حضرت ہشام رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ کی ہے کہ آدمی کسی دوسرے کی زمین میں ناجائز تصرف کرکے اس کا مالک بن بیٹھے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تفسیر یوں کی کہ حق کے بغیر کسی قسم کا استفادہ کرنا عرق ظالم ہے۔(ابو داؤد :الامارۃ 3078)
صورت مسئولہ میں ازروئے قانون وقف کی شرائط کا لحاظ نہیں رکھا گیا اور نہ ہی وقف کرتے وقت اپنی اولاد کو اعتماد میں لیا گیاہے۔وقف کنندہ کو چاہیے تھا کہ وہ قطعہ ارضی مسجد کی انتظامیہ کے حوالے کردیتا، پھر اس کے قانونی تقاضے پورے کرکے مسجد کے نام رجسٹری کرادیتا یا کم از کم اپنی اولاد کو اس سے آگاہ کرکے انہیں اعتماد میں لے لیتا، تاہم اس کے بیٹے نے زبانی وقف شدہ ارضی کودانستہ اور ٖغیر د انستہ طور پر آگے فروخت کردیا اور اس کی رقم وصو ل کرکے اس قطعہ ارضی کو خریدار کے نام رجسٹری بھی کرادی ہے۔ اس میں خریدار کا کوئی قصور نہیں ہے۔ لیکن انتظامیہ مسجد کے تنازعہ کے پیش نظر پنچائتی فیصلہ ہوا کہ خریدار اس قطعہ ارضی سے نو مرلے زمین مسجد کو دے گا۔ اور اس پر وضو خانہ اور باتھ وغیرہ تعمیر کرائے گا اور فریقین نے نہ صرف اس فیصلے کو قبول کیا بلکہ حسب وضاحت بالا اس پر عمل درآمد بھی ہوگیا، اب انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ دوبارہ اس تنازعہ کو نہ اٹھائیں بلکہ اس فیصلے کو قبول کرکے باہمی اتفاق ویگانگت کی فضا پیداکریں۔حدیث میں ہے کہ مسلمانوں کو اپنی طے شدہ شرائط کی پاسداری کرنا چاہیے، اس بنا پر اہل مسجد اب مسجد کی آبادی کےلئے خلوص کے ساتھ کوشش کریں اور اس قسم کےتنازعات سے باہمی نفرت کی فضا پید ا نہ کریں۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب