السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
لاہور سے سعید ساجد لکھتے ہیں کہ پارکوں اور دوسرے پبلک مقامات پر قبضہ کے انداز میں مساجد اور مدارس تعمیر کرنا ،پھر ان مساجد میں نماز ادا کرنا شرعاً کیا حیثیت رکھتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے پیش نظر اس امت کے لئے تمام روئے زمین کو مسجد قرار دیا گیا ہے ،چند مخصوص مقامات کے علاوہ ہر جگہ نماز پڑھی جاسکتی ہے۔(صحیح البخاری حدیث نمبر 335)
لیکن کسی قطعہ اراضی کو شرعی مسجد قرار دینے کے لئے ضروری ہے کہ وہ جگہ وقف تام ہو اور وقف کرنے سے پہلے وقف کنندہ اس کامالک ہو، صورت مسئولہ میں پارک اور پبلک مقامات حکومت کی ملکیت ہیں ایسے مقامات پر شرعی مسجد کے لئے دو صورتیں ہیں:
1۔حکومت وقف پارک یا پبلک مقامات کے کسی حصہ کو مسجد کے لئے وقف کردے۔
2۔اگر قبضہ کے انداز میں مسجد بنائی گئی ہے۔ تو حکومت قانونی طور پر اسے تسلیم کرکے اسے مالکانہ حقوق دے دے۔ لیکن جس مقام پرغاصبانہ قبضہ ہو تو عدم صحت وقف کی وجہ سے اس پر بنائی ہوئی مسجد شرعی مسجدنہیں ہوگی۔ ایسی مساجد کی انتظامیہ کو چاہیے کہ حکومت سے معاملات طے کرکے اس کی قیمت اداکرے یا حکومت سے باضابطہ اجازت نامہ حاصل کرے۔بصورت دیگر حکومت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ایسی جگہ کو منہدم کرکے اس جگہ کو کسی اور مصرف میں استعمال کرے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مسجد بنانے کا پروگرام بنایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نجار کو قیمت ادا کرنے کی پیش کش فرمائی۔ واضح رہے کہ ایسی مسجد میں نمازیوں کو نماز پڑھنے کا پورا ثواب ملتا ہے۔جوشرعی طور پر مساجد ہوں اور وہاں کوئی شرعی رکاوٹ نہ ہو۔ شرعی رکاوٹیں حسب ذیل ہیں:
1۔مال حرام سے مسجد تعمیر کی گئی ہو۔
2۔غصب شدہ زمین پر مسجد کا ڈھانچہ کھڑا کیا گیا ہو۔
3۔مشترکہ قطعہ اراضی کو بلا اجازت شریک ثانی مسجد کے لئے استعمال کیا گیا ہو۔
4۔فخرومباہات اور شہرت وریا کے پیش نظر مسجد بنائی گئی ہو۔
5۔ضرر رسانی ،ضد، ہٹ دھرمی اور پہلی مسجد کی مخالفت کی وجہ سے مسجد تعمیر کی گئی ہو۔
اگر مسجد کی تعمیر میں مندرجہ بالا امور میں سے کوئی ایک بھی پایاگیا تو ایسی مسجد شرعی مسجد نہیں ہے۔اگر کوئی مسجد ان امور سے مبرا ہو اور خالص لوجہ اللہ وقف تام مقام پر تعمیر کی گئی ہو بلاشبہ مسجد شرعی ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب