السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سمندری سے صوفی محمد اقبال لکھتے ہیں کہ کسی سرکاری جگہ پر حکومت کی اجازت کے بغیر مسجد تعمیر کرنا شرعاً کیا حیثیت رکھتا ہے؟کیا ایسی مسجد میں نماز ہوجاتی ہے۔؟کتاب وسنت کی ر وشنی میں جواب دیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عامۃ الناس کے لئے جو مساجد تعمیر کی جاتی ہیں ان کا وقف ہونا ضروری ہے۔ تاکہ تعمیر مسجد کے بعد کسی کو ذاتی تصرف کا حق نہ ہو، اس بنا پر سرکاری زمین پر حکومت کی اجازت کےبغیر مسجد تعمیر کرنا شرعاً درست نہیں ہے۔ کسی کی مملوکہ زمین پر مسجد تعمیر کرنا یا اسے توسیع مسجد میں شامل کرنا اس بات پر موقوف ہے کہ مالک زمین سے اس کے متعلق صریح اجازت حاصل کرلی جائے جبکہ سرکاری زمین پر بلااجازت حکومت مسجد بنانے سے زمین بدستور حکومت کی ملکیت رہتی ہے اور حکومت کو اس میں تصرف کرنے کا اختیار باقی رہتا ہے جو تعمیر مساجد کے اغراض ومقاصد کے منافی ہے۔ بلا اجازت مسجد تعمیرکرنے کا مطلب یہ ہے کہ تعمیرکنند گان حکومتی اختیارات وتصرفات میں دخل اندازی کا ارتکاب کرتے ہیں جو شرعاً اخلاقاً اور قانوناً کسی طرح بھی درست نہیں ہے۔ خاص طور پر اس پرفتن دور میں جب کہ بعض مقامات پر محض کاروباری نقطہ نظر سے مساجد تعمیر ہورہی ہیں۔جہاں موقع ملا وہاں مسجد تعمیر کر ڈالی، خواہ اس کی وہاں ضرورت ہی نہ ہو جیسا کہ عام طور پر گزرگاہوں، چوراہوں اور سڑکوں کے کناروں پر ہورہا ہے، ایسا کرنے سے حکومت کے علاوہ دوسرے لوگوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔اگر حکومت نے اپنی کسی اسکیم میں کوئی قطعہ اراضی مسجد کے لئے چھوڑ رکھا ہے تو بھی تعمیر کے لئے حکومت سے اجازت نامہ ضروری ہے۔تاکہ وہاں باہمی جدال واختلافات اور نفرت وکدورت کا دروازہ نہ کھلے۔اگر کسی کی مملوکہ زمین پر مالک کی اجازت کے بغیر مسجد تعمیر کرلی جائے تو وہاں نماز پڑھنے سے فرض تو ساقط ہوجائےگا لیکن اللہ کے ہاں اس کے اجر وثواب کی امید نہیں کی جاسکتی۔اس لئے ضروری ہے کہ تعمیر مسجدسے پہلے مالک سے اجازت حاصل کرلی جائے، خواہ وہ کسی کی ذاتی ملکیت ہویا سرکاری زمین ہو۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ ہجرت کرکے تشریف لائے تو سب سے پہلے تعمیر مسجد کا ارادہ کیا اس کے لئے جس جگہ کاانتخاب ہوا وہ قبیلہ بنو نجار کے لوگوں کی ملکیت تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں بلا کر اس قطعہ اراضی کی قیمت ادا کرنے کے متعلق پیش کش فرمائی۔لیکن انھوں نے قیمت لینے کی بجائے اپنی خوشی سے فی سبیل اللہ وقف کردی ،اس کے بعد آپ نے وہاں مسجد تعمیر کی،اس لئے مسجد کےلئے زمین کا وقف ہوناضروری ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب