السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
دبئی سے ام ایمن بذریعہ ای میل سوال کرتی ہیں کہ مجھے ابتدائی تین سال تک ایام باقاعدہ آتے رہے ، اس کے بعد بے قاعدہ ہونا شروع ہوگئے۔اب صورتحال یہ ہے ک مہینہ صر ف دس بارہ دن تک آرام رہتا ہے، اس معاملہ میں خاصی پریشان ہوں، براہ کرم کتاب سنت کی روشنی میں الجھن دور فرمائیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عورت کو مخصوص ایام کے علاوہ جو خون آتا ہے اس کو استخاضہ کہا جاتا ہے۔یہ خون کسی اندرونی بیماری یا رگ پھٹنے سے آتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکضۂ شیطان سے تعبیر کیا ہے۔(ابو داؤد، الطہارہ 287)
کیونکہ ان ایام میں شیطان کو موقع ملتا ہے کہ وہ عورت کو پریشان کردے۔ چنانچہ عورت ان دنوں ایک دینی معاملہ میں اشتباہ کا شکارہوجاتی ہےکہ وہ خود کو نماز روزے کے قابل سمجھے یا اس کے قابل خیال نہ کرے۔ واضح رہے کہ استخاضہ کی دو صورتیں ہیں:
(الف)عورت اسی حالت میں مبتلا رہے کسی دن بھی سکون میسر نہ ہو جیسا کہ حضرت فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا نے کہا تھا:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے ایسا استخاضہ آتا ہے کہ کبھی پاک نہیں ہوتی ہوں۔(صحیح البخاری الحیض 306)
(ب) عورت کو بکثرت اس حالت سے دوچار ہونا پڑے۔ مہینہ میں چند دن کے لئے آرام رہے جیسا کہ حمنہ بنت ابی جحش رضی اللہ عنہا نے کہا تھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے جب حیض آتا ہے تو خون اکثر دنوں جاری رہتا ہے۔(ابو داؤد، الطہارہ، 287)
سوال میں اسی حالت کا ذکر ہے، عام طور پر اس کے متعلق طبعی شرم وحیا سے کام لیاجاتا ہے۔جبکہ صحابیات رضی اللہ تعالیٰ عنہن مسائل دریافت کرنے میں اس طبعی حیا کو رکاوٹ خیال نہیں کرتی تھیں۔لہذااس کے متعلق تفصیل سے بتادینا مناسب معلوم ہوتا ہے تاکہ سائلات اور غیر سائلات دونوں کے لئے راہنمائی کا باعث ہو۔
مستحاضہ عورتوں کی حالتیں ہیں:
1۔ اسے اپنے ایام حیض معلوم ہوں، اس صورت میں جتنے ایام، حیض کے لئے مخصوص ہوں گے ان پراحکام حیض اور بقیہ ایام پر استحاضہ کے احکام جاری ہوں گے۔یعنی حیض کے دنوں میں نماز روزہ ترک کردیا جائے اور استحاضہ کے دنوں میں ہر نماز کے لئے تازہ وضو کرکے اسے ادا کیا جائے۔حدیث میں ہے کہ : حضرت فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا نے کہا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے ایسے استحاضہ آتا ہے کہ کبھی پاکیزگی حاصل نہیں ہوتی کیا میں نماز چھوڑوں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :'' نہیں،یہ خون ایک رگ سےآتا ہے،اپنے ایام حیض کی مقدار نماز ترک کردے، پھر غسل کرکے نماز کا آغاز کردے۔''(صحیح البخاری :الوضوء 228)
واضح رہے کہ ایک روایت میں وضاحت ہے کہ وہ ہر نماز کے لئے تازہ وضو کرے۔اس لفظ کاتقاضا ہے کہ مستقل عذر والے مرد،عورت کو ہر نماز کے لئے وضو کرنا ہوگا۔اور اس نماز سے متعلقہ سنن ونوافل بھی اس وضو سے پڑھے جاسکتے ہیں 'نماز ا دا کرنے کے بعد وضو خود بخودختم ہوجائے گا۔صورت مسئولہ میں سائلہ کو چاہیے کہ وہ اس ہدایت پر عمل کرے ،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام حبیبہ بنت جحش رضی اللہ عنہا جو حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کی اہلیہ تھیں'انہیں فرمایاتھا:'' کہ جتنے دن تجھے تیرا حیض روکے رکھے اتنے دن تک نماز ترک کردے ،پھر غسل کرکے نماز شروع کردو۔''(ابو داؤد الطہارہ 279)
اس قسم کی عورت کو فقہا کی اصطلاح میں معتادہ کہاجاتا ہے۔یعنی اسے اپنی عادت کا پتہ ہوتا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ عادت کے علاوہ اگر بقیہ ایام میں خون جاری رہتاہے تو روئی یا کپڑا یا لنگوٹ استعمال کرکے نماز شروع کردی جائے۔ احادیث میں یہ تمام ہدایات ملتی ہیں۔
2۔مستحاضہ کی دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ اسے یاد نہیں یا اس میں بگاڑ آگیا ہے۔یا جب سے حیض آنا شروع ہوا خون جاری رہا کبھی بند نہیں ہوا تو ایسی عورت کے متعلق یہ حکم ہے کہ وہ خون حیض کی خود تمیز کرے، اس قسم کی عورت کو متمیزہ کہتے ہیں، تمیز کرنے کی تین صورتیں ہیں:
1۔خون سیاہی مائل ہو۔2۔وہ گاڑھا ہو۔3۔اس کی ناگوار گندی ہوا ہو۔
مثلا ایک عورت کو جب حیض شروع ہوا تو ابتدائی دس دن اس کی رنگت سیاہ دیکھی یا وہ گاڑھا تھا یا اس کی ہواگندی تھی تو وہ تمیز کر دہ ایام حیض کے شمار کرکے بقیہ ایام استحاضہ میں غسل کرے اور ہر نماز کے لئے وضو کرکے نماز پڑھے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا سے فرمایا تھا:'' کہ حیض کا خون سیاہ رنگ کا ہوتاہے،جس سے حیض کی پہچان ہوجاتی ہے۔ لہذا سیاہ خون آنے تک نماز ترک کردو ، پھر وضو کرکے نماز شروع کردو۔کیونکہ اس کے بعدآنے والا خون استحاضہ کا ہے۔(ابو داؤد الطہارہ 286)
3۔تیسری صورت یہ ہے کہ اس عورت کے دن بھی مقرر نہ ہوں اور نہ ہی وہ تمیز کرسکتی ہو، مثلا جب اسے حیض آنا شروع ہوا تو وہ ایک صفت رہا، یا کبھی سیاہ، پھر سرخ ،پھر سیاہ آتا رہا جس سے حیض کی پہچان نہ ہوسکے۔اس قسم کی عورت کو فقہاء کی اصطلاح میں ''متحیرہ'' کہتے ہیں۔احادیث کے مطابق اس قسم کی عورت کے متعلق یہ حکم ہے کہ وہ اپنی عمر اور جوانی کی صحت کے لحاظ سے ملتی جلتی عام عورتوں کی عادت کے مطابق عمل کرے۔یعنی وہ ہر مہینے چھ یاسات دن حیض کے شمار کرکے بقیہ ایام میں استحاضہ کے مطابق عمل کرے۔جیسا کہ حضرت حمنہ بنت جحش رضی اللہ عنہا نے کہا تھا:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے بکثرت شدت سےخون آتا ہے کیا میں نماز روزہ ترک کردوں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' تم روئی استعمال کرو، اس سے خون رک جائے گا۔''عرض کیا :خون کی مقدار اس سے بھی زیادہ ہے۔ یعنی ر وئی وغیرہ کے استعمال سے بند نہیں ہوتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا:'' یہ رکضہء شیطان ہے تو اللہ کے علم کے مطابق چھ یا سات دن تک نماز ترک کردے، پھر غسل کرکے تئیس یاچوبیس دن نماز پڑھ اور روزہ بھی رکھ۔''(ابو داؤد الطہارۃ287)
واضح رہے کہ چھ یا سات دن اکثر عورتوں کی عادت کے مطابق ہیں۔وہ عور ت دیکھے میری عمر اور جسمانی صحت کس سے ملتی ہے اس کی عادت کے مطابق عمل کرے ، ہمارے فقہائے کرام نے اس مقام پر بہت عجیب وغریب صورتیں پید ا کی ہیں ،جنھیں ہم نے دانستہ نظرانداز کردیا۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب