سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(13) "میں علم کا شہر ہوں اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کا دروازہ ہے "

  • 11133
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 2060

سوال

(13) "میں علم کا شہر ہوں اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کا دروازہ ہے "

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ملتان سے احتشا م الحق بذر یعہ ای میل سوا ل کر تے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق ریڈ یو ٹی وی پر یہ حدیث بیان کی جا تی ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فر ما یا : ’’ میں علم کا شہر ہوں اور علی رضی اللہ عنہ اس کا دروازہ ہے ‘‘ کیا یہ حدیث صحیح ہے اگر صحیح ہے تو اس کا کیا مطلب ہے ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہما ر ے ہا ں بیشتر احادیث زبان زد خا ص و عا م ہیں لیکن اس کی استنا دی حیثیت انتہا ئی مخد و ش ہوتی ہے ان میں سے ایک یہ ہے جس کا سوال میں حوالہ دیا گیا ہے، اس روا یت کو امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تا لیف مستدر ک میں بیا ن کیا ہے ۔(ج 3/ص 126)

 یہ حد یث بیا ن کر نے کے بعد امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اس کی سند صحیح ہے اور ابو الصلت نا می راوی ثقہ اور با عث اطمینان ہے لیکن امام ذھبی رحمۃ اللہ علیہ نے حا کم کے بیا ن پر با یں الفا ظ تبصرہ کیا ہے:’’ بلکہ یہ رو ایت مو ضو ع اور خو د سا ختہ ہے اور ابو الصلت راوی نہ ثقہ ہے اور نہ با عث اطمینا ن ۔‘‘ (تلخیص المستدرک : ج 3/ص126)

اس روایت کےمتعلق ایک دوسر ے مقام پر لکھتے ہیں کہ امام حا کم کا اس طرح کی با طل روایات کوصحیح قرا ر دینا انتہا ئی تعجب انگیز ہے اور اس کا ایک راو ی احمد تو دجا ل اور درو غ گو ہے، اس کے با ر ے میں امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  لکھتے ہیں کہ محدثین  کے نز دیک یہ روا یت ضعیف بلکہ مو ضو ع ہے۔(احا دیث القصاص :ص،78)

خطیب بغدادی امام یحییٰ بن معین کے حوا لہ سے اس حد یث کے متعلق لکھتے ہیں کہ روایت جھو ٹ کا پلند ہ اور اس کی کو ئی بنیا د نہیں ہے ۔

 یہ روا یت مختلف الفا ظ سے مر وی ہے اور اس کے تمام طر ق بے کا ر ہیں امام جو ز ی نے اس رو ایت کے تمام طر ق پر بڑی سیر حا صل بحث کی ہے جو تقر یباً چھ صفحا ت پر پھیلی ہو ئی ہے انہو ں نے عقلی اور نقلی لحا ظ سے اسے بے بنیا د قرا ر دیا ہے، فر ما تے ہیں یہ حد یث کسی بھی طر یق سے صحیح ثا بت نہیں ہے ۔ (موضوعات : ج 1ص353)

اس روا یت کے دوسر ے الفا ظ حسب ذیل ہیں :’’ میں دا نا ئی کا گھر ہو ں اور علی اس کا دروازہ ہے۔‘‘ (ترمذی : کتا ب المنا قب )

امام ترمذ ی اس رو ایت کو بیا ن  کر نے کے بعد لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں غرا بت اور نکا رت ہے ۔حا فظ سخا وی، امام دارقطنی کے حوا لہ سے لکھتے ہیں کہ یہ حدیث مضطر ب ہو نے کے سا تھ سا تھ بے بنیا د بھی ہے ۔ (المقا صد الحسنہ :ص 97)

اس روا یت کے متعلق امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  لکھتے ہیں کہ امام ترمذی اور دیگر حضرات نے اسے بیان کیا ہے، ان کے بیا ن کر نے کے باوجو د یہ محض جھو ٹ ہے ۔ (احا دیث القصاص : ص 78)

علا مہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ مذکو رہ رو ایت کو امام تر مذی  رحمۃ اللہ علیہ  نے اسماعیل بن مو سیٰ سے، انہوں نے محمد بن عمر سے ، انہو ں نے شر یک سے بیان کی ہے، مجھے معلو م نہیں ان میں سے کس نے اسے وضع کیا ہے۔ (میزا ن الاعتدال : ج 3/ص 698)

علا مہ شو کا نی رحمۃ اللہ علیہ  نے بھی اس رو ایت کو مو ضو عا ت میں شما ر کیا ہے ۔ (الفوائد المجموعہ فی الاحادیث المو ضو عہ : ص 648)

اگر چہ حا فظ ابن حجر  رحمۃ اللہ علیہ  نے اسے کثر ت طر ق کی وجہ سے حسن کہا ہے لیکن ان کا فیصلہ محل نظر ہے کیو نکہ کثر ت طر ق سے روایت میں پایا جا نے وا لا معمو لی سقم تو دو ر ہو سکتا ہے لیکن بنیا د ی کمزوری اس سے رفع نہیں ہو تی، چنا نچہ محد ث ابن الصلا ح لکھتے ہیں : " کثر ت طرق سے ضعف رفع نہیں ہو تا وہ یہ ہے کہ اس روایت میں کوئی را وی متہم با لکذ ب  ہو ۔( مقد مہ ابن الصلا ح : ص 31 )

 اس روا یت کی سند میں صر ف تہمت زدہ راو ی نہیں بلکہ کذا ب اور جھوٹے راو ی مو جو د ہیں، محدث العصر علا مہ البانی رحمۃ اللہ علیہ  نے بھی اسے موضوع قرار دیا ہے اور اس کے تما م طر ق پر بحث کر کے اس کا خود ساختہ ہو نا واضح کیا ہے ۔( ضعیف الجا مع الصغیر : 1416)

اس روا یت کے مقا بلہ میں ایک صحیح روا یت ملا حظہ ہو جس کا تر جمہ پیش  خد مت ہے : حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیا ن کر تے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو یہ فر ماتے ہو ئے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : " کہ خوا ب میں میرے پا س دودھ کا پیا لہ لا یا گیا ، میں نے اس میں سے کچھ دودھ نوش کیا حتیٰ کہ اس کی سیرا بی میر ے نا خنو ں سے ٹپکنے لگی، میں نے اپنا بچا ہوا دودھ  عمر رضی اللہ عنہ کو دے دیا ۔ " صحا بہ کرا م رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اس کی تعبیر کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  اس کی تعبیر علم ہے ۔ (صحیح بخا ر ی : کتا ب تعبیر الر ؤ یا 7006)

ایسا معلو م ہو تا ہے کہ اس رو ایت کو نیچا دکھا نے کے لئے مذکو رۃ الصدر روایت کو وضع کیا گیا ہے عر صہ ہوا کہ راقم نے اس روا یت کی استنادی حیثیت ہفت روزہ اہلحدیث( 31/مارچ1989ء) میں واضح کی تھی، اس کا دفا ع سید شبیر حسین بخاری نے پندر ہ روزہ  ’’ذوا لفقا ر‘‘ پشا ور میں کیا ۔ ان کے مبلغ علم سے قا ر ئین اس دفا ع کا اندا زہ لگا سکتے ہیں ، بخاری صا حب نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حوا لہ سے لکھا ہے کہ تمام قر آن حکیم کا لب لباب بسم اللہ میں ہے اور بسم اللہ کا اس کی ب میں اور ب کا اس کے نقطہ میں جو اس کے نیچے ہے اور وہ نقطہ میں ہو ں " پند رہ روزہ ذو الفقا ر مجر یہ 16/ اپریل 1989ءمعتقد مین اور متو سلین کو خو ش کر نے کے لئے تو اس طرح کی بے کا روایات سہارا بن جا تی ہیں لیکن علمی دنیا میں اس طرح کی روا یا ت کا کو ئی مقا م نہیں ہے ۔(واللہ اعلم با لصوا ب )

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:49

تبصرے