سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(11) موئے مبارک کی زیارت کی حقیقت

  • 11131
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 3353

سوال

(11) موئے مبارک کی زیارت کی حقیقت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

لاہور سے محمد بلا ل حما د لکھتے ہیں کہ آج کل اخبا را ت میں موئے مبا ر ک کی زیا رت کا بہت چر چا ہے اس کی کیا حقیقت ہے ؟ نیز مفتیا ن کرا م کی طرف سے یہ فتو یٰ بھی جا ر ی ہو ا ہے کہ جو آنکھ مو ئے مبارک کی زیا رت کر ے گی اس پر جہنم کی آگ کچھ اثر نہیں کر ے گی اس فتویٰ کی شر عی حیثیت کیا ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے با لو ں کو مو ئے مبا رک کہا جاتا ہے حضرت عا ئشہ رضی اللہ عنہا  نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے خو بصو ر ت بالوں کی منظر کشی بڑ ے دلکش اندا ز میں کی ہے ہم اس سلسلہ میں " آئینہ جما ل نبو ت " نا می کتا ب کے الفا ظ مستعا ر لے کر ہدیہ قا رئین  کر تے ہیں :

’’ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے بال مبا ر ک بڑے خو بصورت اور قدر ے خمدا ر تھے ، نہ با لکل سید ھے اور نہ ہی زیادہ  پیچدار ، جب رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ان میں کنگھی کر تے تو ہلکی ہلکی لہر یں بن جا تیں جیسا کہ ریت کے ٹیلے یا پا نی کے تا لا ب میں ہو ا چلنے سے لہر یں ابھر آتی ہیں  اور جب کچھ دن کنگھی  نہ کرتے تو آپس میں مل کر انگو ٹھی کی طرح حلقو ں  کی شکل اختیا ر کر لیتے، پہلے پہل اپنے با لو ں میں کنگھی کر کے انہیں پیشانی میں کھلے چھوڑ دیتے تھے، پھر جب حضرت  جبر ئیل  علیہ السلام  اپنے سر کے بالو ں میں مانگ نکال کر تشر یف لا ئے تو آپ نے بھی مانگ نکا لنا شروع کر دی ، آپ کے با ل کا نو ں کی لو تک ہو تے، بعض اوقا ت کندھوں تک پہنچ جاتے، کبھی کبھی ایسا ہوتا کہ آپ با لو ں کی مینڈھیا ں بنا لیتے، پھر دا یاں کا ن دونوں گیسو ؤں کے درمیا ن اسی طرح با یا ں کان بھی دونوں گیسوؤں کے در میا ن بڑ احسین اور خو شنما منظر پیش کرتا، ایسا معلو م ہو تا  کہ گھنے سیا ہ با لو ں کے در میا ن خو بصورت کا ن چمکدار ستا روں کی طرح جگمگا ر ہےہیں ۔‘‘ (دلا ئل النبو ۃ: 1/298)

(1)رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مختلف اوقا ت میں اپنے اللہ کے حضو ر چا ر دفعہ ان خو بصورت با لو ں کا نذرانہ پیش کیا اور صلح حد یبیہ کے مو قعہ پر حضرت خرا ش بن امیہ  رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی استرے سے حجامت کی ،جبکہ آپ عمر ے کا احرا م باند ھے ہو ئے تھے ۔

(2)اگلے سا ل عمرۃ القضاء کے مو قع پر حضر ت معا ویہ رضی اللہ عنہ نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے مو ئے مبارک کا قصر کیا ۔

(3) عمرہ جعرانہ سے فرا غت کے بعد ابو ہند رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے مو ئے مبارک کا قصر کیا۔

(4)حجۃ الودا ع کے مو قع پر منیٰ میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  رمی جما ر سے فا ر غ ہو ئے تو آپ نے قربا نی کی ،پھر حضرت معمر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے آپ کے مو ئے مبا ر ک کو استر ے سے صاف کیا۔

صحا بہ کرا م رضی اللہ عنہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مو ئے مبا رک  سے کس قدر محبت اور عقیدت تھی اس کا اندا ز ہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے ایک بیا ن سے بخو بی لگا یا جا سکتا ہے فر ما تے  ہیں :’’ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو دیکھا جبکہ حجا م آپ کے سر مبا ر ک کے با ل صا ف کر رہا تھا اور آپ کے صحا بہ کرا م رضی اللہ عنہم آپ کے گر د تھے وہ چا ہتے تھے کہ آپ کا کو ئی بھی با ل زمین پر گر نے کے  بجائے کسی نہ کسی کے ہا تھ میں گرے ۔‘‘ (صحیح مسلم :کتا ب الفضا ئل )

بلکہ عرو ہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیا ن اس سے بھی زیا دہ حیرا ن کن ہے کیو نکہ آپ ابھی مسلما ن نہیں ہوئے تھے۔ وہ آپ کے صحا بہ کرام رضی اللہ عنہم کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے محبت و عقیدت کو با یں الفاظ بیا ن کر تے ہیں : ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب وضو کر تے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے صحا بہ کرا م رضی اللہ عنہم زمین پر گر نے وا لے پا نی کو لینے کے لئے دو ڑ  پڑ تے ہیں جب آپ لعا ب دھن تھو کتے تو جلدی سے ہا تھوں اور چہر ے پر مل لیتے ہیں اور جب کبھی آپ کا مو ئے مبا ر ک گر تا ہے تو اسے ہا تھو ں ہاتھ لیتے ہیں ۔‘‘ (مسند احمد: 4/324)

یہ عجیب اتفا ق ہے کہ آپ کے مو ئے مبا رک  سے اس قدر محبت و عقیدت کے باوجو د کتب حدیث میں صرف دو ایسی خوا تین کا ذکر ملتا ہے جنہوں  نے خا ص طو ر پر آپ کے مو ئے مبا ر ک کو محفو ظ رکھنے کا اہتمام فر ما یا، ایک ام المو منین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور دوسری حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا۔  اس کی تفصیل یہ ہے کہ :" صحیح بخا ری میں حضرت عبد اللہ بن مو ہب رضی اللہ عنہ کا بیا ن بایں الفا ظ نقل ہوا ہے کہ مجھے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے ایک مر تبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے موئے مبا رک دکھا ئے تھے۔(حدیث نمبر : 5898)

اس کی مز ید  تفصیل صحیح بخا ری میں نقل ہوئی ہے کہ مجھے ( عبد اللہ بن مو ہب ) میر ے گھر وا لو ں نے پا نی کا ایک پیا لہ دے کر ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا  کے پا س بھیجا کیو نکہ ان کے پا س ایک خو بصورت چاند ی کی ڈبیہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے مو ئے مبا رک  محفو ظ تھے، آپ پا نی میں انہیں ڈا ل کر ہلاتیں پھر وہ پا نی نظر بد یا بخا ر والے مر یض کو پلا یا جا تا ،میں نے  اس وقت ڈبیہ میں سر خ رنگ کے مو ئے مبا رک دیکھے تھے ۔(حدیث نمبر :5896)

 اب سوا ل یہ پیدا ہو تا ہے کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے یہ مو ئے مبا ر ک کب اور کیسے حا صل کیے؟حدیث یا تاریخ کی کتا بو ں میں اس کے متعلق کو ئی صرا حت نہیں ہے، البتہ ہمیں خا رجی قرا ئن سے اس معمہ کو حل کر نا ہو گا ۔ مکہ مکر مہ سے ہجر ت کے بعد مشر کین نے مسلما نو ں پر  مسجد حرا م کے دروا زے بند کر رکھے تھے ہجر ت کے چھٹے سا ل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوا ب آیا کہ آپ اور آپ کے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم مسجد حرا م میں داخل ہوئے اور بیت اللہ کا طواف کیا ،پھر آپ کو دکھا یا گیا کہ کچھ لوگوں نے سر کے بال منڈوا ئے اور کچھ نے ہلکے کرائے،جب آپ نے اپنے صحا بہ کرا م رضی اللہ عنہم کو اس خوا ب کی اطلاع دی تو وہ بہت خو ش ہو ئے کہ اس سا ل کے مکہ میں دا خلہ نصیب ہو گا اور ہم عمرہ کر یں گے ، چنا نچہ آپ یکم ذو القعدہ 6/ہجر ی سومو ار  کے دن پندرہ سو جاں نثاروں سمیت مدینہ منورہ سے مکہ مکر مہ روا نہ ہوئے ، آپ کے ہمرا ہ ام المؤ منین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں ، حد یبیہ کے مقا م پر پتہ چلا کہ مشر کین اس سا ل عمرہ نہیں کر نے دیں گے ، چنا نچہ ایک معا ہدہ طے پا یا جو صلح حد یبیہ کے نا م سے مشہو ر ہے، اس میں بظا ہر نا روا شر ئط بھی تھیں، صحا بہ کرا م رضی اللہ عنہم بہت پر یشا ن، غمنا ک اور کبیدہ خاطر ہوئے کہ ہم اس سا ل عمرہ نہیں کر سکیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  جب معاہدہ صلح سے فا رغ ہو ئے تو فر ما یا :" اٹھو !اور اپنے جا نو ر قر با ن کر دو لیکن پر یشا نی کی وجہ سے آپ کے صحا بہ کرا م رضی اللہ عنہم میں سے کو ئی بھی نہ اٹھا، آپ نے یہ بات تین مرتبہ دہرا ئی مگرپھر بھی کو ئی بھی نہ اٹھا تو آپ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور لوگوں کے طر ز عمل کا ذکر فر ما یا ، ام المؤ منین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بہت زیرک ،صا حب بصیرت ،دا نا اور عقل مند خا تو ن تھیں، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ دیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ! اگر آپ ایسا چا ہتے ہیں تو آپ با ہر تشر یف لے جا ئیں اور کسی سے کچھ کہے بغیر خا مو شی کے سا تھ اپنا جا نو ر ذبح کر دیں اور حجا م کو بلا کر اپنا سر منڈوالیں۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اس کے بعد با ہر تشریف لائے ، قر با نی کا جا نو ر ذبح کیا اور خرا ش  رضی اللہ عنہ بن امیہ کو بلا کر اپنا سر منڈاوا لیا ، جب لو گو ں نے یہ منظر دیکھا تو سب کے سب اپنی قر با نی کر نے اور سر منڈوا نے میں مشغو ل ہو گئے، جلد ی جلدی تعمیل حکم سے یو ں معلو م ہو تا تھا کہ فر ط غم کی وجہ سے ایک دوسر ے کو قتل کر دیں گے ۔ (صحیح بخا ر ی :الشرو ط)

معلو م ہو تا ہے کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا  کے پا س جو مو ئے مبا رک محفوظ تھے وہ یہی تھے کیو نکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے جاں نثا ر اس مو قع پر بہت پر یشان اور کبیدہ خا طر تھے انہیں آپ کے مو ئے مبارک کو محفو ظ رکھنے کا خیا ل تک نہ آیا حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا  کو آپ کے آثا ر شر یفہ اور تبرکا ت سے خصو صی لگا ؤ تھا جیسا کہ مندرجہ ذیل واقعہ سے معلو م ہو تا ہے مقا م جعرا نہ پر تقسیم غنا ئم کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پا س ایک اعرا بی آیا اور کہنے لگا کہ آپ میرا وعدہ کب پو ر ا کر یں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فر ما یا : "تجھے بشا رت ہو۔" اعرابی کچھ جلد با ز  تھا  اسے یہ با ت اچھی نہ لگی، آپ اس کی نا گوا ری دیکھ کر نا را ض ہو ئے اور بحا لت غصہ حضرت ابو مو سیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے پا س تشر یف لا ئے اور فر ما یا : کہ اس نے میر ی بشا رت کو مسترد کر دیا ہے، اب تم اسے قبو ل کر لو ۔اس کے بعد آپ نے پا نی کا پیا لہ منگوا یا ،اس میں چہرا اور ہا تھ دھو ئے اور اس میں کلی کی پھر فر ما یا ؛" کہ تم اس سے کچھ پا نی نو ش کر لو اور کچھ اپنے چہرے پر چھڑ ک لو اس کے بعد انہو ں نے پیا لہ لیا اور آپ کی ہدا یت پر عمل کیا حضرت ام سلمہ  رضی اللہ عنہا  نے پر دہ کے پیچھے سے آواز دی کہا:اس با برکت پا نی سے اپنی  ماں ام سلمہ  رضی اللہ عنہا  کے لئے کچھ بچا رکھنا۔ چنانچہ انہوں نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے لئے بھی پا نی بچا لیا ۔ (صحیح بخا ری : کتا ب المغا زی، غزوۃ الطائف )

دوسر ی خا تو ن جنہوں نے آپ کے مو ئے مبا رک کو محفو ظ کیا تھا وہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی وا لدہ ماجدہ حضرت ام سلیم  رضی اللہ عنہا  ہیں، انہیں بھی آپ کے تبرکا ت سے خصو صاً لگا ؤ تھا ،چنانچہ ایک دفعہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  آپ کے گھر تشر یف لا ئے اور مشکیز ے سے منہ لگا کر پا نی نو ش فرما یا تو حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا نے مشکیز ے کا وہ حصہ کا ٹ کر رکھ لیا تھا جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے لب مبار ک لگے تھے ۔(مسند احمد:3/119)

اسی طرح آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پسینہ مبا رک جمع کر تیں اور اسے خوشبو میں ملاتیں جس سے خوشبو کی مہک دو چند ہو جا تی ۔(صحیح مسلم کتا ب الفضا ئل ) جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا ہے کہ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کے پا س بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے مو ئے مبا رک تھے۔ جس کی تفصیل یہ ہے کہ محمد بن سیر ین  رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عبید ہ سلما نی سے کہا کہ ہما رے پا س رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مو ئے مبا رک ہیں جو ہمیں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے عنایت ہو ئے تھے یہ سن کر حضرت عبیدہ سلما نی  کہنے لگے کہ کا ش کہ میرے پا س رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا صرف ایک با ل ہو تا جو میرے نزدیک دنیا اور اس کے خزا نو ں سے زیا دہ قیمتی ہے۔ (صحیح بخا ری :حدیث نمبر170)

حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیا ن ہے کہ حجۃ الو دا ع کے مو قع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے جب اپنا سر منڈوا یا تو پہلے پہلے حضرت ابو طلحہ  رضی اللہ عنہ (حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کے شو ہر نا مدا ر ) تھے جنہوں نے آپ کے مو ئے مبا رک حا صل کئے ۔(صحیح بخا ری : حدیث نمبر 171)

 اس کی کچھ تفصیل اس طرح ہے کہ حجۃ الو دا ع کے مو قع پر دسو یں تاریخ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے قر با نی کی پھر حجا م کو بلا یا اور دائیں جا نب کے با ل صا ف کر کے لو گو ں میں ایک ایک یا دو دو تقسیم کر دیئے، پھر با ئیں جا نب کے با ل اتا ر کر حضرت ابو طلحہ  رضی اللہ عنہ کو دے دیئے ۔ (صحیح مسلم: با ب بیا ن ان السنۃ یو م النحر )

دیگر روا یا ت میں مز ید تفصیل بھی ہے کہ حضرت ابو طلحہ نے مو ئے مبارک کب اور کیسے حا صل کئے اور پھر کسے دے دئیے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے  حجۃ الو دا ع کے مو قع پر رمی کر نے کے بعد قربانی کی، پھر حجا مت بنوائی اپنے سر کے تما م با ل حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کو دے دئیے اور فر ما یا : کہ دا ئیں جانب کے با ل لو گو ں میں تقسیم کر دو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فر ما یا : کہ یہ با ل اپنی بیو ی ام سلیم رضی اللہ عنہا  کو دے دو، چنانچہ انہوں نے ایسا کیا ،حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا  ان با لو ں کو دھو تیں اور اس پا نی کو خوشبو میں ملا تیں جس سے خو شبو تیز ہو جا تی ۔(مسند امام احمد : 1450)

 بعض روا یا ت میں ہے کہ وہ بخا ر والے مر یض کو پا نی پلا تیں تو صحت مند ہو جا تا (مسند امام احمد )رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مو ئے مبا رک کی حقیقت بیا ن کر نے کے بعد ہم اس با ت کا جا ئز ہ لیتے ہیں کہ اس وقت آپ کے مو ئے مبا رک مو جو د ہیں یا لو گو ں کے جذبا ت سے نا جا ئز فائدہ اٹھا نے کے لئے صر ف دعویٰ کی حد تک اسے شہر ت دی جا تی ہے لیکن مسئلہ ز یر بحث کی نزا کت کے پیش نظر ہم یہ وضا حت کر دینا ضروری خیا ل کر تے ہیں کہ آپ کے موئے مبا رک اگر آج حقیقتاً موجو د ہیں تو ان میں خیرو بر کت کا پہلو بد رجہ اتم مو جو د ہے، وقت گزرنے کے سا تھ سا تھ اس میں کو ئی کمی نہیں آسکتی، جیسا کہ حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ  کے پاس مو ئے مبا رک تھے جو انہیں فضل بن ربیع رحمۃ اللہ علیہ  کے کسی لڑکے نے عنا یت فر ما ئے تھے ، آپ ان با لو ں کو بو سہ دیتے، آنکھو ں پر لگا تے اور پانی میں بھگو کر شفا کے طور پر اس پا نی کو نوش کر تے، جن دنو ں آپ پر آز ما ئش آئی اس وقت وہ آپ کی آستین میں رکھے ہو ئے تھے ، بعض لو گوں نے آپ کی آستین سے مو ئے مبا رک نکالنے کی کو شش کی لیکن وہ نا کا م  رہے ۔ (سیر اعلام النبلاء : 11/250)

اس کے علا و ہ بھی متعدد آثا ر و واقعات سے معلوم ہو تا ہے کہ صحا بہ کرام رضی اللہ عنہم اور تا بعین عظام کے بعد بھی لو گ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آثا ر شریفہ اور مو ئے مبا ر کہ سے تبر ک لیتے تھے،اگرچہ اکثر واقعات صحیح نہیں ہیں بلکہ وہ غلط طو ر پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسو ب ہیں ، اس وقت آپ کے موئے مبا ر ک کی مو جو د گی کا جا ئز ہ لینے کے لئے مندر جہ ذیل حقا ئق کو پیش نظر رکھنا انتہا ئی ضروری ہے ۔

(1)حضرت عمر وبن حا رث  رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے و فا ت کے وقت جائیدا د کے طو ر پر نہ کو ئی درہم و د ینا ر چھو ڑا اور نہ ہی کو ئی لو نڈی غلا م آپ کا تر کہ بنا ،صرف آپ کی سفید خچر ،کچھ ہتھیا ر اور تھوڑی سی زمین تھی جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی میں ہی صدقہ کر دیا تھا۔(صحیح بخا ری، کتا ب الو صا یا )

اس کا مطلب یہ ہے کہ وفا ت کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذا تی اشیا ء بہت کم تعداد میں مو جو د تھیں ۔

(2) وقت گزرنے کے سا تھ ساتھ آپ کے آثا ر شریفہ اور تبر ک معدوم ہو گئے یا جنگو ں اور فتنوں کی نذر ہو کر ضا ئع ہو گئے جیسا کہ مندرجہ ذیل واقعات سے معلوم ہو تا ہے ۔

(الف)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چا ندی کی ایک انگو ٹھی بنوا ئی تھی جسے آپ پہنتے تھے آپ کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسے استعما ل کر تے تھے ، ان کے بعد حضرت عثما ن رضی اللہ عنہ کے پا س رہی ، با لآخر بئر اریس میں گر گئی اور تلاش بسیا ر کے با و جو د وہ نہ مل سکی۔ (صحیح بخا ری، کتا ب اللبا س )

(ب) عبا سی دور کے آخر میں جب تاتاریو ں نے بغداد پر حملہ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی رداء اور چھڑی جس سے آپ کھجلی کیا کر تے تھے ہنگا موں کی نذر ہو گئی ۔یہ سن ( 656)  کے وا قعا ت ہیں۔

(ج) دمشق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف منسو ب پا پو ش مبا رک بھی نو یں ہجری کے آغا ز میں فتنہ تیمو ر لنگ کے وقت ضا ئع ہو گئی ۔

(د)آپ کے آثا ر شر یفہ کے فقدان کی ایک وجہ یہ تھی کہ جس خو ش قسمت انسا ن کے پا س رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی کو ئی نشا نی مبارک تھی ،اس نے وصیت کر دی کہ اسے قبر میں اس کے ساتھ ہی دفن کر دیا جا ئے ۔ مثلا ًرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے لئے ایک عورت نے اپنے ہا تھو ں سے چا در تیا ر کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطو ر تحفہ پیش کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبو ل کرتے ہو ئے زیب تن فر ما یا ۔ حضرت عبد الر حمن بن عو ف رضی اللہ عنہ نے اس خوا ہش کے پیش نظر کہ وہ چا در آپ کا کفن ہو رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے مانگ لی ۔ چنانچہ وہی چا در حضرت عبد الرحمن بن عو ف رضی اللہ عنہ کا کفن بنی۔(صحیح بخا ری : کتا ب الجنا ئز )

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنا قمیص مبا رک رئیس المنا فقین عبد اللہ بن ابی کو پہنا یا تا کہ اس کے بیٹے کی حو صلہ افزائی ہو شا ید اس کی بخشش کا کو ئی ذریعہ بن جا ئے ، وہ قمیص بھی قبر میں  بطو ر کفن دفن کر دی گئی  جیسا کہ پہلے بیا ن کیا گیا ہے کہ حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ  کے پا س چند مو ئے مبا رک تھے تو آپ نے وصیت کردی تھی کہ انہیں قبر میں ان کے سا تھ ہی دفن کر دیا جا ئے،چنا نچہ ایسا ہی کیا گیا ۔(سیر اعلام النبلاء : 11/337)

اسلامی مما لک کے متعدد شہروں سے اخبا را ت میں یہ خبر یں آتی ہیں کہ ان کے ہا ں رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے مو ئے مبا ر ک ہیں مثلاً تر کی کے دار الحکو مت استنبو ل میں کسی نے دعویٰ کیا کہ اس کے پاس  43 مو ئے مبارک تھے، ان میں سے 25 بال ہد یہ کے طور پر مختلف سر برا ہوں کو دے دئیے گئے ہیں اور اس کے پا س 18 با ل مو جو د ہیں، ہمارے ہا ں پچھلے دنوں جا معہ اشر فیہ لا ہو ر کے مہتمم کی طرف سے اخبا را ت میں یہ دعویٰ شا ئع ہو ا تھا کہ ان کے پاس بھی مو ئے مبا ر ک ہیں جنہیں بہترین عطر سے غسل دیا جا تا ہے، نیز خواتین و حضرا ت درودشریف کا ورد کرتے ہو ئے ان کی زیا رت کر تے ہیں ،انہو ں نے یہ فتو یٰ بھی دیا کہ جو آنکھ ان مو ئے مبا رک کی زیا رت کر ے گی اس پر جہنم کی آگ کچھ اثر نہیں کر ے گی ، انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ یہ موئے مبا ر ک سعو دیہ کے فر ما نر وا ملک عبدالعزیز مر حو م نے اپنے ایک ہند و ستا نی معا لج حکیم نا بینا دہلی والے کو تبرکا دئیے تھے، الی آخر ہ۔

 رمضا ن المبا رک کی ستائیسویں اور شعبا ن المعظم کی پند رھویں را ت کو ان با لو ں کی زیا رت کا خاص اہتمام کیا جا تا ہے ، حا لانکہ یہ سب بلا دلیل دعو ے ہیں ، سعو دی حکو مت اور پا کستا ن میں سعو دی سفا رت خا نہ سے اس تمام خو د ساختہ پلند ے کے جھو ٹ ہو نے کی تصد یق کی جا سکتی ہے، پھر اس فتو یٰ کی بھی کوئی شرعی حیثیت نہیں بلکہ لو گو ں کو بے عمل بنا نے کے لئے ایک مؤثر تحر یک ہے، شر یعت مطہرہ میں صرف دو قسم کی آنکھیں ہیں جن پر جہنم کی آگ حرا م ہے۔

(1)وہ آنکھ جس نے اللہ کی راہ میں پہرہ دیا ہو ۔

(2) وہ آنکھ جو اللہ کے ڈر سے اشکبا ر ہو ئی ہے۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے آثا ر شر یفہ اگر صحیح ہو ں تو ان سے دو شر ا ئط کے ساتھ تبرک لیا جا سکتا ہے :

(1)تبرک لینے وا لا شر عی عقیدہ اور اچھے کردار کا حا مل ہو جو شخص سچا مسلما ن نہیں اسے اللہ تعا لیٰ اس قسم کے تبر کا ت کا کو ئی فا ئدہ نہیں پہنچا ئیں گے ۔

(2)جو شخص تبر ک حا صل کر نا چا ہتا ہو اسے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی آثا ر شر یفہ میں سے کو ئی شے حا صل ہو اور پھر وہ اسے استعمال بھی کرے، محض دیکھ لینے سے کو ئی فا ئدہ نہیں ملے گا، ہم مذکو رہ حقائق کی روشنی میں علی وجہ البصیر ت کہتے ہیں کہ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے کپڑوں با لو ں اور اسی طرح کی دیگر اشیاء میں سے کچھ بھی با قی نہیں ہے اور نہ ہی کسی کے بس میں ہے کہ وہ قطعی اور یقینی طور پر یہ ثا بت کر سکے کہ فلا ں چیز وا قعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے۔ جب صورت حا ل یہ ہے تو پھر ان موئے مبا رک کے سا تھ عملی طور پر تبرک تو ہما رے اس دور میں ممکن نہیں۔

 آخر میں ہم اس امر کی وضاحت کر نا ضر وری خیا ل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے صحا بہ کرام رضی اللہ عنہم نے اگر چہ صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ کے آثا ر شر یفہ سے تبر ک حا صل کیا اور آپ کے لعا ب دھن کو اپنے چہرو ں  اور جسمو ں پر ملا اور آپ نے انہیں منع نہیں فرما یا ،ایسا کرنا جنگی  حا لا ت کے پیش نظر انتہا ئی ضرو ری تھا مقصد یہ تھا کہ کفا ر قر یش کو ڈرا یا جا ئے اور ان کے سا منے اس با ت کا اظہا ر کیا جائے کہ مسلما نو ں کا اپنے راہبر اور راہنما سے تعلق کس قدر مضبو ط ہے، انہیں اپنے  نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم سے کس قدر وا لہا نہ عقیدت و محبت ہے، وہ آپ کی خدمت میں کس قدر فنا ہیں اور وہ کس کس اندا ز سے آپ کی تعظیم بجا لا تے ہیں لیکن اس کے با وجو د اس حقیقت سے صرف  نظر نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اسے چھپا یا جا سکتا ہے کہ اس صلح حدیبیہ کے  بعد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے بڑ ے حکیما نہ انداز میں اور لطیف اسلو ب کے سا تھ مسلما نو ں کی تو جہ اعما ل صا لحہ کی طرف مبذول کر نے کی کوشش فرما ئی جو اس قسم کے تبر کا ت کو اختیا ر کر نے سے کہیں بہتر ہیں۔ مند ر جہ ذیل حدیث اس سلسلہ میں ہما ر ی مکمل را ہنمائی کر تی ہے :

 "حضرت عبد الر حمن بن ابوقراد  رحمۃ اللہ علیہ سے روا یت ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک دن وضو فر ما یا ، آپ کے صحا بہ کرا م رضی اللہ عنہم نے آپ کے وضو کے پا نی کو اپنے جسموں پر ملنا شر وع کر دیا ، آپ نے در یا فت فر ما یا :کہ تم ایسا کیو ں کرتے ہو ؟ صحا بہ کرا م رضی اللہ عنہم نے عر ض کیا کہ ہم اللہ اور اس کے رسو ل  صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت  کے پیش  نظر ایسا کر تے ہیں۔ آپ نے فر ما یا : جسے یہ با ت پسند ہو کہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  سے محبت کر ے یا اللہ اور  اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم  اس سے محبت کر ے تو اسے چا ہیے کہ بات کر تے ہو ئے سچ بو لے، اس کے پا س امانت رکھی  جا ئے تو اسے ادا کر ے اور ا پنے پڑو سیوں سے حسن سلو ک  کا مظا ہر ہ کر ے ۔ (الاحا دیث الصحیحہ:نمبر 6/998)

مختصر یہ ہے کہ ہما ر ے نز دیک رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا اصل تبرک یہ ہے کہ جو کچھ ہمیں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ذریعے اللہ کی طرف  سے ملا ہے اس پر عمل کیا جا ئے اور آپ کی صورت و سیر ت کی اتباع کی جا ئے، اس دنیا و آخرت کی خیر و بر کا ت سے ہم مشرف ہو ں گے  جیسا کہ حا فظ ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  لکھتے ہیں :

 " اہل مدینہ  کو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی بر کت  کی وجہ سے دنیا و آخرت کی سعادت سے بہر ہ ور کیا گیا بلکہ ہر مؤمن جسے اس بر کت کی بدو لت ایمان نصیب ہوا ،اسے اللہ کے ہا ں اتنی بھلائیو ں سے نوازا جائے گا جس کی قدر و قیمت کو وہی جا نتا ہے ۔ (مجمو عہ  فتا وی ٰ ابن تیمیہ 11: 113)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:42

تبصرے