سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(318) جمعہ پڑھ لیں تو پھر فرض نماز پڑھنےکی ضرورت نہیں

  • 1113
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1406

سوال

(318) جمعہ پڑھ لیں تو پھر فرض نماز پڑھنےکی ضرورت نہیں

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جس نے جمعہ پڑھا ہو، کیا وہ نماز ظہر بھی پڑھے گا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

جب انسان جمعہ پڑھ لے تو اس وقت اس پر جمعہ ہی فرض ہے، لہٰذا وہ ظہر نہ پڑھے۔ نماز جمعہ کے بعد ظہر کی نماز پڑھنا بدعت ہے کیونکہ ایسا کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے، لہٰذا اس سے منع کرنا واجب ہے حتیٰ کہ اگر کئی جمعے ہونے لگیں، تو پھر بھی نماز جمعہ کے بعد نماز ظہر پڑھنا مشروع نہیں ہے بلکہ یہ بدعت اور ایک منکر کام ہے کیونکہ ایک وقت میں اللہ تعالیٰ نے انسان پر ایک ہی نماز کوواجب قرار دیا ہے اور وہ نمازجمعہ ہے اب جب جمعہ اس نے ادا کر لیا تواس کے ذمہ سے نماز ظہر کی ادائیگی ساقط ہوگئی۔ اور جس نے اس کا سبب یہ قرار دیا ہے کہ ایک شہر یا بستی میں کئی جمعے جائز نہیں ہیں اور جب کئی جمعے ہوں تو جمعہ اس مسجد میں ادا کیا جائے جو سب سے پہلی مسجد ہو اور اگر یہ معلوم نہیں کہ سب سے پہلی مسجد کون سی ہے، لہٰذا سارے جمعے باطل ہوں گے اور ان کے بعد نماز ظہر کو پڑھنا ضروری ہوگا۔ ہم ان لوگوں سے پوچھتے ہیں کہ یہ دلیل یا یہ تعلیل تم نے کہاں سے اخذ کی ہے۔ کیا اس کی بنیاد سنت پر ہے یا کسی صحیح عقلی دلیل پر؟ اس کا جواب یقینا نفی میں ہوگا، اس بنیادپرہم یہ کہیں گے کہ اگر جمعے حاجت وضرورت کی وجہ سے متعدد ہیں تو سارے صحیح ہیں کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿ فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا استَطَعتُم...﴿١٦ ... سورة التغابن

’’سو جہاں تک ہو سکے اللہ سے ڈرو۔‘‘

جب کوئی شہر بہت دور دور تک پھیل گیا ہو یا مسجدیں تنگ ہوں اور ضرورت کی وجہ سے مختلف جمعے ہوں تو اس مطلب یہ ہے کہ اس شہر کے لوگ اللہ سے مقدور بھر ڈر گئے اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے مقدور بھر ڈر جائے تو اس نے اپنے واجب کو ادا کر دیا، لہٰذا یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ اس کا عمل فاسد ہے اور اسے نماز جمعہ کے بجائے ظہر کی نماز بھی ادا کرنی چاہیے۔ اگر کسی حاجت وضرورت کے بغیر متعدد مقامات پر جمعے ادا کیے جائیں تو بلا شبہ یہ خلاف سنت ہے،ان کا یہ تعامل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین  رضی اللہ عنہمکے عمل کے خلاف ہے، اکثر اہل علم کے نزدیک اس کی ممانعت ورادہوئی ہے لیکن اس کے باوجود ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ جمعہ کی صورت میں ادا کی گئی عبادت صحیح نہیں ہے کیونکہ یہاں ذمہ داری عوام کی نہیں بلکہ ان حکمرانوں کی ہے جنہوں نے حاجت و ضرورت کے بغیر متعدد جمعوں کی اجازت دے رکھی ہے، لہٰذا ہم کہتے ہیں کہ مساجد کے انتظام وانصرام سے متعلق حکمرانوں کا فرض ہے کہ وہ ضرورت و حاجت کے بغیر متعدد جمعوں کی اجازت نہ دیں کیونکہ شارع کی نظر میں اس بات کی بے حد اہمیت ہے کہ لوگ تمام عبادات کو اجتماعی طور پر ادا کریں تاکہ آپس میں الفت ومحبت پیدا ہو اور جو دین کے احکام ومسائل سے آگاہ نہیں ہے، وہ واقفیت حاصل کر لے۔ علاوہ ازیں ان میں اور بھی بڑی بڑی اور بہت سی مصلحتیں ہیں۔ شرعی اجتماعات ہفتہ وار ہیں یا سالانہ یا یومیہ جیسا کہ معروف ہے۔ یومیہ اجتماعات ہر محلے کی مساجد میں ہوتے ہیں کیونکہ شارع اگر لوگوں پر اس بات کو واجب قرار دے دیتا کہ وہ روزانہ ایک ہی جگہ پر پانچ مرتبہ جمع ہوں تو اس میں بہت مشقت ہوتی، لہٰذا اس معاملے میں تخفیف کر دی گئی اور ہر محلے کی مسجد میں یومیہ اجتماعات کی اجازت دے دی گئی۔

ہفتہ وار اجتماع جمعہ کے دن ہوتا ہے، جس میں ہفتہ میں ایک بار سب لوگ جمع ہوتے ہیں، اس غرض کے پیش نظرسنت کا تقاضا یہ ہے کہ یہ اجتماع ایک ہی جگہ ہو، متعدد جگہ پر نہ ہو۔ کیونکہ ہفتہ وار اجتماع میں ایک جگہ جمع ہونے میں کوئی دشواری نہیں جب کہ اس میں بہت بڑی مصلحت یہ بھی ہے۔ کہ لوگ ایک امام و خطیب کے کی اقتداء میں جمع ہوتے ہیں جو سب کی ایک جیسی راہنمائی کرتا ہے، پھرجب وہ جمعہ ادا کرنے کے بعد واپس جاتے ہیں تو ان سب نے ایک جیسی نصیحت حاصل کی ہوتی ہے اور ایک ہی نماز ادا کی ہوتی ہے۔ سالانہ اجتماع عید کے موقع پر ہوتا ہے اور یہ سالانہ اجتماع سارے شہر کے لیے ہوتا ہے، لہٰذا جمعہ کی مسجدوں کی طرح یہ جائز نہیں کہ عیدوں کے لیے بھی مختلف مسجدیں ہوں، الاّیہ کہ حاجت وضرورت کا تقاضا ہو۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ322

محدث فتویٰ

تبصرے